موت کے سوداگر۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی/قسط1

دس اقساط کی پہلی قسط
غازی آباد ایک چھوٹا سا گاوں ہے، گاوں کے چاروں طرف سبز لہلہاتے کھیت ہیں کھیتوں کے درمیاں ایک کچی سی سڑک گزرتی ہے جو شہر کی طرف جاتی ہے، دن جب چڑھتا ہے تو مشرق کی طرف سے سورج کے طلوع کا منظر کافی دلکش ہے سورج کی پیلی سنہری کرنیں جب کھیتوں پر پڑتی ہیں تو ایک عجیب سی سحر کُن منظر کشی پیدا کرتی ہے۔ درختوں پر پرندوں کے  چہچہانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، صبح صبح ہی لوگ اس کچی سڑک پر گاوں سے باہر کی طرف جاتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں، ایک گوالا ہے وہ اپنی سائیکل پر بیٹھا ہوتا ہے اس کے سائیکل کے پیچھے دو دودھ والے ڈبے لٹکے ہوتے ہیں وہ سائیکل کی گھنٹی بجاتا ہوا سڑک پر چلنے والے لوگوں کو خبردار کرتا ہے، ایک بوڑھا سا چچا جو اسی سڑک پر چل رہا ہوتا ہے وہ سائیکل پر سوار دودھ والے کو ہاتھ  ہلا کر آہستہ آہستہ چلنے کا اشارہ کرتا ہے اور دودھ والا ہاتھ کے  اشارے سے سلام کرتا ہوا اس کے پاس سے گزر جاتا ہے، وہ چچا مسکرا کر پھر سے سڑک پر چل پڑتا ہے.

سین بدل جاتا ہے…

سکندر کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ اٹھ کر چارپائی میں بیٹھ جاتا ہے کچھ دیر بعد وہ چارپائی سے اتر کر کمرے سے نکل آتا ہے اور صحن میں لگے نلکے سے منہ ہاتھ دھوتا ہے اور واپس آکر کمرے میں پڑے اپنے جوتے چارپائی پر بیٹھ کر پہنتا ہے اور باہر آکر گھر کے دروازے سے نکل جاتا ہے، اس کے کپڑوں پر سلوٹیں ہیں بغیر استری کے کپڑوں کے ساتھ وہ ایک چھوٹے سے گھر سے برآمد ہوتا ہے دو تین گلیوں سے ہوتا ہوا کچی  سڑک پر  آکر تھوڑی دیر تک چلتا رہتا ہے پھر ایک پگڈنڈی پر مڑ کر چلتے چلتے کھیتوں تک پہنچ جاتا ہے دور تک کھیتوں کا چکر کاٹ کر واپس گھر کی طرف آنے لگتا ہے، واپسی پر وہ اسی راستے سے ہوتے ہوئے گاوں کے چھوٹے سے بازار سے گزرتا ہے جب وہ گاوں کے واحد حلوائی کی دکان سے گزرتا ہے تو دکان کھلی ہوتی ہے اور وہ وہاں پر موجود تازہ مٹھائیوں کی اقسام کو دور سے تھوڑی دیر دیکھتا رہتا ہے کچھ دیر رکنے کے بعد وہ واپس اپنے گھر کی طرف آتا ہے۔۔ جس وقت وہ گھر کے قریب پہنچتا ہے تو وہ کچھ آوازیں سنتا ہے جو کہ اس کے گھر کے اندر سے آرہی ہوتی ہیں وہ کچھ قریب ہو کر دروازے کے ساتھ کان لگا لیتا ہے اور آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ سنتا ہے کہ اس کا باپ اس کی ماں سے کہہ رہا ہوتا ہے…

“دیکھو اپنے اس آوارہ بیٹے کو سمجھاو اس کو بولو کہ اب مجھ میں اور دم نہیں ہے کہ میں ہر روز دوسروں کے کھیتوں میں جاوں اور وہاں سبزیوں کی  بھاری بھر کم بوریوں کو اٹھاوں اب اسے میرا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔۔کب تک مفت کی روٹیاں توڑے گا”

وہ بدستور کان لگا کے سن رہا ہوتا ہے اور اسی وقت اس کو اپنی ماں کی آواز سنائی دیتی ہے جو کہ اس کے باپ کے کہی  ہوئے باتوں کا جواب دیتی ہے۔۔۔

“ٹھیک ہے سکندر کے ابا! میں آج اس کو اچھی طرح سے سمجھاتی ہوں اب آپ زیادہ غصہ نہ کریں آپ کا ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے پراٹھا ابھی گرم ہے کھا لیں”

سکندر جب اپنے ماں باپ کی یہ باتیں سن لیتا ہے اور اس کو احساس ہوتا ہے کہ اب کچھ اور سننے کی امید نہیں ہے تو وہ دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوتا ہے، اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنی  ماں کے پاس جاکر کھڑا ہو جاتا ہے، اس کی ماں توے پر دوسرا پراٹھا بنانے میں لگی ہوتی ہے، جب وہ سکندر کو  اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ لیتی ہے تو اس کے چہرے کے خدوخال میں تغیر آجاتا ہے اور وہ سکندر کی طرف دیکھ کر بولتی ہے…

“کہاں چلے جاتے ہو صبح صبح سکندر”

سکندر ماں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے…

“ماں آپ کو تو معلوم ہے میں ہر صبح کھیتوں میں جاکر تازہ ہوا کھانے کا شوقین ہوں پھر بھی آپ پوچھتی ہو کہ کہاں چلا جاتا ہوں میں”

اس کی ماں سکندر کے اس طرح ڈھٹائی سے جواب دینے پر غصہ ہو جاتی ہے اور وہ اس سے  بولتی ہے…

“اپنے بوڑھے باپ کو دیکھو اور اُس کو اِس عمر میں باہر جاکر محنت مزدوری کرتے دیکھو۔ کیا تم کو شرم نہیں آتی اپنے باپ کو اس عمر میں بوجھ اٹھاتے ہوئے؟”

سکندر کے چہرے پر ناگواری چھا جاتی ہے اور وہ وہاں سے واپس گھوم کر گھر کے دروازے تک جاتا ہے کہ اسی دوران اسے اپنے باپ کی آواز سنائی دیتی ہے جو صحن میں بیٹھا ناشتہ کر رہا ہوتا ہے وہ اسے کہتا ہے…

“سکندر بیٹا جب ہم تمھاری عمر کے تھے تو ہم کو بھی شوق تھا کہ باہر کھلی ہواوں میں آزاد گھوما کریں لیکن ہم نے اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا ہم نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کبھی کسی کے سامنے اپنی بے بسی کی داستان نہیں سنائی کیونکہ ہم کو معلوم تھا کہ ہاتھ پھیلانے والے شخص کی کوئی عزت نہیں ہوتی نہ ہی اس کی زندگی میں کبھی خوشی کی لہریں آ پاتی ہیں ہم نے محنت کی، اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دن رات مزدوری کی، کبھی حرام کی کمائی گھر والوں کو نہیں کھلائی، خواہ تھوڑا کھلایا ہو یا زیادہ کھلایا لیکن کھلایا ضرور ،مفت میں بیٹھے نہیں رہے ہم”۔۔

سکندر کا باپ خاموش ہوجاتا ہے اور سکندر کی طرف سوالیہ انداز سے دیکھ رہا ہوتا ہے، سکندر جہاں تھا وہیں  کھڑا    اپنے باپ کی باتیں سنتا رہتا ہے جب اس کے باپ کی باتیں ختم ہوجاتی ہیں تو وہ واپس پلٹتا ہے اور باپ کے پاس آکر  بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے…

“بابا میں آپ کی طرح ساری زندگی اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوں، میں بڑے شہر جانا چاہتا ہوں جہاں دوسرے بھی بہت سے کام مل جاتے ہیں اور میں زیادہ پیسہ کمانا چاہتا ہوں مجھے اتنے پیسوں میں دلچسپی نہیں کہ دن کو کماوں اور شام کو وہ ختم ہو جائے”

سکندر اپنے باپ کو جو کہہ ڈالتا ہے وہ ان الفاظ کا نتیجہ اپنے باپ کے چہرے پر جو کہ غصے کی صورت میں آتا ہے دیکھے بغیر اُٹھ جاتا ہے اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے.

سین بدل جاتا ہے…

شہر کے ایک ایک پلیٹ فارم پر ایک ریل گاڑی دور سے آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اس کی رفتار آہستہ آہستہ سے دھیمی ہوتی جاتی ہے آخر کار وہ سٹیشن پر آکر رک جاتی ہے۔۔ مسافر اتر رہے ہوتے ہیں ایک موٹی عورت گاڑی سے اترتی ہے اس کے پیچھے ایک دبلا پتلا سا آدمی بھی اترتا ہے اس آدمی کے دونوں ہاتھوں میں بکس ہوتے ہیں ایک چھوٹا  ہوتا ہے لیکن اس چھوٹے سے بکس میں وزن زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بکس اس دبلے پتلے آدمی کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور جیسے ہی وہ بکس چھوٹ کر نیچے گر  تا ہے وہ کھل جاتا ہے اور اس میں موجود سارا سامان بکھر جاتا ہے وہ آدمی جلدی سے بیٹھ کر اس سامان کو سمیٹنے میں لگ جاتا ہے اس کے ساتھ ہی آواز سن کر موٹی عورت پیچھے مڑ کر اس سامان کو بکھرا ہوا دیکھتی ہے تو غصے سے اس دبلے پتلے آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کو دھکا دیتی ہے اور اس سے کہتی ہے…

“خدا جانے میرے ابا نے تجھ میں ایسے کون سے سرخاب کے پر دیکھے تھے جو مجھے تیرے ساتھ بیاہ دیا تجھ سے تو اچھا تھا کہ میں کنواری بیٹھی رہتی”

وہ موٹی عورت بھی اس سامان کو سمیٹنے میں لگ جاتی ہے جو بکھرا پڑا ہوتا ہے.

یہ سب کچھ دوسرے مسافروں کو مضحکہ خیز لگتا ہے اور کچھ لوگ ان کی طرف دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہوتے ہیں ان لوگوں میں ایک ایسا شخص بھی کھڑا ہوا ہوتا ہے جس نے کالے رنگ کی جینز اور سفید رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی ہوتی ہے اس کی  آنکھوں پر کالا چشمہ اور ایک ہاتھ میں ایک بریف کیس ہوتا ہے وہ کچھ دیر یہ سب دیکھتا ہے پھر ایک طرف کو چل پڑتا ہے، وہ شخص سٹیشن سے باہر نکلتا ہے اور سامنے کھڑی  ہوئی ٹیکسیوں میں سے ایک ٹیکسی والے کو ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے، ٹیکسی والا اس کو دیکھ لیتا ہے اور وہ اس کی طرف ٹیکسی اسٹارٹ کرکے بڑھا دیتا ہے، قریب پہنچ کر وہ شخص اس میں بیٹھ جاتا ہے اور ڈرائیور کو کہتا ہے۔۔۔
“شاہ پیلس ہوٹل چلو”
ٹیکسی والا “اچھا جناب” کہتا ہے اور ٹیکسی چل پڑتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply