عقیدے۔۔۔۔عارف خٹک

میرے ایک چچا ہیں،اللہ حیاتی دے۔ میرے ساتھ بات چیت بند کر رکھی تھی۔کیوں کہ ایک دن میں نے اُن کے لونڈے کو رات کے کھانے پر روکنے کے لئے اصرار کیا تھا۔ لہٰذا جب بھی مُجھے دیکھتے تو اُن کا بس نہیں چلتا تھا،کہ مجھے گولی سے اُڑا کر رکھ دیں۔
1996ء میں جب سیکنڈایئر کا سٹوڈنٹ تھا۔ کالج سےچُھٹیوں پر گاؤں آیا ہوا تھا۔ تو شام کے وقت حُجرے میں بزرگوں کےساتھ بیٹھ کر ہم نوجوان اُن کےتجربات سے استفادہ حاصل کیا کرتے تھے کہ لڑکے کیسے پٹائے جاتے ہیں،اور لڑکیوں کو عزت کیسے دی جاتی ہے۔ سو اُن بزرگوں میں چچا جان بھی موجود تھے۔ اُن کی گود میں ایک سال کی ننھی سی میری ایک کزن بھی تھی۔ وہ بچی مُسلسل اُونگھ رہی تھی۔ پہلے تو میں سمجھا،کہ شاید بچی کو نیند آرہی ہے۔مگر اُس کی نقاہت نے مجھے شک میں ڈال دیا کہ لامحالہ بچی کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے چچا کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُن سے بچی لےلی۔اور جیسے ہی بچی کی آنکھیں دیکھیں میں ہل کر رہ گیا۔ بچی کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ اُس کے گلے میں دس پندرہ تعویز اور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تاروں سے باندھے گئے تھے۔

میں نےچچا سے پُوچھا،کہ اس بچی کو کیا ہوا ہے؟ چچا نے مُنہ پُھلا کر جواب دیا۔کہ جن چڑھا ہوا ہے، اور مولوی صاحب سے علاج ہورہا ہے۔ ۔۔۔ میرے دل میں بےاختیار خواہش جاگی کہ اُن کو اتنی چماٹیں مار دوں کہ چچا کا سُرخ منہ دیکھ کر بچی کا جن اُن پر چڑھ جائے اور میں جن پر چڑھ جاؤں۔ بچی کو اپنے ساتھ لے کر بڑے چچا کی گاڑی میں کرک کے ہسپتال لے گیا۔۔ ڈاکٹر کو چیک کرایا،تو معلوم ہوا کہ بچی میں خون کی شدید کمی ہے۔ کم از کم تین بوتلیں خون کی چاہیئں ۔ اب میں اکیلی جان یہ سوچ کر کہ تین بوتل خون تو میرے اندر بھی نہیں ہوگا۔ لیکن توّکل کرتے ہوئے سٹریچر پر لیٹ گیا ۔کہ ڈاکٹر صاحب  ایمرجنسی میں فی الحال میرے خون پر گزارہ کرلیں۔ ہسپتال میں اس وقت بلڈ بینک والا کلرک بھی گاؤں چُھٹی پر گیا تھا۔ بچی کو ایڈمٹ کیا گیا۔ اگلی صُبح بھکاریوں کی طرح پوسٹ گریجویٹ کالج کرک گیا۔اور ایک ایک کلاس روم میں جاکر بچی کیلئے خون کی بھیک مانگنے لگا۔ مگر کوئی بھی سٹوڈنٹ خون دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ مایُوس ہوکر واپس پیدل ہسپتال کےلئے روانہ ہوا۔جو کالج سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔اتنے میں کیا دیکھتا ہوں،کہ کالج کا ادھیڑ عمر چوکیدار بھاگتا ہوا میرے پیچھے آرہا ہے کہ بیٹا میں خون دینے کےلئے تیار ہوں۔

ہسپتال واپس پہنچا۔۔۔۔۔ بچی کو خون چڑھایا جا چکا تھا اور دوائیوں کےزیر اثر وہ سو رہی تھی۔اتنے میں یوں لگا،جیسے ہسپتال میں کوئی زلزلہ یا طُوفان آگیا ہو۔ چچی اور چچا زورو  شور سے لڑتے جھگڑتے وارڈ میں داخل ہوئے۔چچا جان نے ایک زور کا تھپڑ مجھے جڑ دیا کہ میری بیٹی کو تم نے ہاتھ کیسے لگایا ہے۔ مولوی صاحب نے تنبیہہ کی تھی کہ دوران علاج اگر اس بچی کو کسی ڈاکٹر کو دکھایا۔تو جن غصے سے بے قابو ہوجائے گا اور بچی کو جلا کر بھسم کردے گا۔
وارڈ میں موجُود دوسرے لوگوں نے سمجھا بُجھا کر دونوں کو بٹھا دیا۔ ڈاکٹر نے آکر ان دونوں کی خوب کلاس   لی کہ اگر یہ بچی بروقت یہاں نہیں پہنچتی  تو بچنے کے امکانات زیرو تھے۔ بچی کو انفیکشن ہوا ہے اور خون کی شدید کمی ہے۔ لہٰذا ایک دو دن ہسپتال میں رہے گی۔ بچی کو ان کے والدین کے حوالے کرکے میں گھر واپس چلا آیا۔ گھر میں ماں جی نے تھپڑوں سے خاطر تواضع کی کہ تیری وجہ سے آج میری بے عزتی ہوئی ہے اور دیوروں کی گالیاں سُنی ہیں۔ تُجھے کیا ضرورت تھی؟اُن کی بچی کو ہسپتال لےکر جانے کی؟ مرنے دیتے۔۔۔۔ ان کے عقیدوں کے بیچ آنے کا حق تمہیں کس نے دیا؟روتے ہوئے میں نے جواب دیا۔کہ اماں ایک انسان کو جانتے بُوجھتے کیسے مرنے دیا جاسکتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت گزرتا گیا۔بچے جوان اور جوان بُوڑھے ہوگئے۔
پچھلے دنوں گاؤں جانا ہوا۔تو یہی کزن اپنے دو بچوں کےساتھ گاؤں آئی ہوئی تھی۔ میں گرمجوشی سے آگے بڑھا کہ پوچھ لوں،کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے۔اس نے فوراً برقعے میں منہ چُھپا لیا۔کیونکہ پشتون روایات میں رشتہ داروں سے پردہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اُس نے تو مُنہ چُھپا لیا۔مگر مُجھے اس کی گود میں ایک سالہ بچی جو مُرجھائی مُرجھائی سی لگ رہی تھی،دکھائی دی۔اور اس بچی کے گلے میں دس پندرہ تعویز اور ساتھ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لٹکتے نظر آئے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply