تقسیم ہند اور نظریاتی اختلافات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیاقت علی

تقسیم ہند کے وقت تاریخ کے سب سے  بڑے  فرقہ ورانہ فسادات پنجاب میں ہوئے تھے۔ پنجابیوں نے مذہب کے نام پرایک دوسرے کا جو خون بہایاانسانی تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے۔ پنجابیوں نے ظلم و ستم کی تمام حدیں پار کرلی تھیں۔عورتیں اور بچے بھی ان کی قتل و غارت گری اور بربریت سے نہیں بچ سکے تھے۔مذہب کے نام پر تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی بھی پنجاب سے ہوئی تھی۔ مغربی پنجاب ہندووں، سکھوں اور جین مت کے ماننے والوں سے خالی ہوگیا تھا جب کہ مشرقی پنجاب سےننانوے فی صد مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پنجابی مسلمان بہت جلد اپنے نئے ملک میں سیٹل ہوگئے اور انھوں نے نئی حقیقتوں کو قبول کر لیا تھا حالانکہ وہ پاکستان قائم کرنے میں کبھی پرجوش اور پیش پیش نہیں رہے تھے۔

لیکن یہ دلچسپ تضاد ہے کہ یوپی اور بہار جو قیام پاکستان کے نظریاتی وارث تھے وہاں سے صرف آٹھ  اور دس فی صد کے قریب مسلمانوں نے پاکستان نقل مکانی کی تھی وہاں اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات بھی نہیں ہوئے تھے  لیکن  پاکستان کے نظریاتی بیانیہ پر ان کو اجارہ داری حاصل ہے اور وہ آج بھی خود کو پاکستان کا بنانے والا سمجھتے ہیں۔مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کی نقل مکانی اگست سے دسمبر تک کے چار مہینوں میں مکمل ہوگئی تھی جب کہ یوپی اور بہار سے آنے والوں کا سلسلہ تین چار دہائیوں تک چلتا رہا۔جس کسی کو اچھی ملازمت اورمعاشی مواقع کی تلاش ہوتی وہ پاکستان کا رخ کرتا اوریہاں داخل ہوتے ہی وہ نظریہ پاکستان کا پرچم تھام کر خود کو سب سے بڑا محب وطن کہلاناشروع کردیتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی پرسوں  کے روزنامہ ایکسپریس ( یکم جنوری 2019ٰ) میں محترمہ رئیسہ موہانی کا انٹرویو چھپا ہے جو اس ذہنی رحجان کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ محترمہ رئیسہ معروف شاعر و سیاست دان حسرت موہانی کی بھتیجی  ہیں۔وہ قیام پاکستان کے بعد 1963 میں شادی کرکے پاکستان تشریف لائی تھیں لیکن وہ آج خود کو پاکستان کے بنانے والوں میں شمار کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ساری تعلیم بھارت میں حاصل کی تھی اور پاکستان میں ورود محض شادی کی بدولت ہوا تھا۔ خود ان کے شوہر انعام الحسن موہانی بھی قیام پاکستان کے چار سال بعد پاکستان وارد ہوئے تھےجس کا مطلب ہے کہ انھیں وہاں کسی قسم کے فرقہ ورانہ ظلم و ستم کا سامنا نہیں تھا تبھی تو وہ اتنے سال وہاں مقیم رہے تھے۔ وہ اپنے انٹرویو میں کہتی ہیں   کہ مولانا حسرت موہانی قیام پاکستان کے بعد یہاں رہنے کے لئے تشریف لائے تھے لیکن پھر واپس چلے گئے حالانکہ مولانا پاکستان میں قیام کے لئے کبھی نہیں آئے تھے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ مشاعروں میں شرکت اور اپنے رشتہ داروں سے میل ملاپ کے لئے ضرور قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں تشریف لاتے رہے تھے لیکن قیام کی غرض سے ہرگز نہیں۔ رئیسہ موہانی کہتی ہیں کہ مولانا حسرت موہانی اگرہمارے ہاتھوں میں ہندی کی کوئی کتاب دیکھ لیتے تو فوراً  چھین لیتے تھے لیکن شائد محترمہ کو نہیں معلوم کہ مولانا حسرت موہانی نے ہندو دیوتا رام کی تعریف و توصیف میں شاعری بھی کی اور وہ جنم اشٹمی بھی بڑے اہتمام سے مناتے تھے۔ یوپی کی اردو سپیکنگ مڈل کلاس جو بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں پاکستان آئی تھی اس نے پاکستان کے وسائل پر قبضے کو نظریاتی چوغہ پہنانے کے لئے فرضی کہانیاں اور فرضی ہیرو بہت بنائے ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تقسیم ہند اور نظریاتی اختلافات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیاقت علی

Leave a Reply