تاریخ ماضی قریب کے ملکوں کی ہو ،ماضی بعید کے پتھر زمانوں کی یا مختلف ادوارکا ذکر ہو۔مطالعہ کرتے کرتے آپ کو کہیں نہ کہیں، کِسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی شخصیت ضرور موہ لیتی ہے۔آپ کے دل کے اندر اُتر جاتی ہے۔آپ کو اپنی شخصیت کے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کی تاریخ پڑھتے ہوئے دو ہستیوں نے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ایدر نے کا وہ بیس اکیّس سالہ نوجوان سلطان محمد فاتح اور وہ سولہویں صدی کا اعلیٰ و ارفع سلیمان ذی شان جس کے گھوڑے کے سموں نے سارا مشرقی یورپ روند ڈالا تھا۔عثمانی سلطنت دنیا کی عظیم ترین ،مضبوط ترین اپنے انتہائے عروج کو پہنچی ہوئی۔
اوائل ستمبر کی اِس ڈھلتی شام میں ہم دونوں یعنی سیما اور میں جزیرہ نما استنبول کے بحیرہ مرمرا،آبنائے باسفورس اور سنہری خلیج کے پانیوں پر سے تیر کر آتی ہوئی ہواؤں کے جُھلار سے لُطف اندوز ہوتی اُسی ذی و قارسلطان سلیمان کی مسجد سلیمانیہ، اُس کا مقبرہ اور لائبریری دیکھنے جارہی تھیں۔یہ استنبول کی تیسری پہاڑی پر جو قدرے ڈھلانی صورت میں ہے پر واقع ہے۔ اکثر جب ہم استنبول کے ایشیائی حصّے سے اس کے یورپی حصّے کی طرف آتے۔ کِسی سٹیمریا لانچ کے عرشے پر کھڑے جونہی گولڈن ہارن کے پانیوں کی طرف دیکھتے ۔یہ اپنے بے شمار خاکستری پُروقار گنبدوں کے ساتھ کِسی ملکہ عالیہ کی طرح ہمیں نظرآتی جو اپنے دربار کی سب سے اونچی مسند پر تمکنت سے بیٹھی ہوئی جیسے کہتی ہو۔
یہ بھی پڑھیے مولانا رومی اور رقصِ درویشاں۔۔۔۔۔سفر نامہ استنبول/سلمٰی اعوان۔۔قسط9
’’ تم لوگوں نے مجھے کب دیکھنے آنا ہے؟میں تمہاری منتظر ہوں۔‘‘
میں محبت پاش نظروں سے اُس کے مرکزی گنبد کو دیکھتے اور زیر لب سرگوشی کے سے انداز میں اُسے مخاطب کرتی۔ ’’تم تو بہت خاص چیز ہو۔تمہارے پہلو میں لیٹی ہوئی اُس عظیم ہستی کی محبت میں تو میں جکڑی ہوئی ہوں۔بس آتی ہوں۔‘‘
گذشتہ تین دنوں سے دوپہر کے بعدہوٹل کے ریسپشن پر ایک پیاری سی، ہنس مکھ اور دوستانہ سے رویّے والی لڑکی نظر آتی تھی جو مسکراہٹوں کی اُچھال کود میں بڑی ہی فیاض تھی۔انگریزی کی بھی اچھی خاصی شدبُد رکھتی تھی۔مشورے لینے میں اُسی کے دروازے پر جا کھڑئے ہوتے تھے۔اُسی نے راستہ دکھادیا تھا۔
’’ٹرام سے ایمی نونو تک جائیے۔ینّی مسجد کی عقبی گلیوں سے اندر ہی اندر سلیمانیہ مسجد تک زیادہ فاصلہ نہیں۔ کسی سے پوچھنا ہو تو سلیمان ینّی کہئیے۔لوگ بتادیں گے ۔ہاں مگر اس کی لائبریری کمپلیکس ضرور دیکھیں۔
استنبول کی دنیا کے کتنے رنگ تھے۔ہر روز اس کاایک نیا منفرد انداز سامنے آتا۔مصری بازار راستے میں پڑا تو کیسے ممکن تھا اِسے دیکھے بغیر آگے بڑھ جاتے۔ چھتا ہوا، آراستہ پیراستہ دوکانیں مگر بورے اور بوریاں بھی بڑھاوے والے پھٹوں کے ساتھ دھری تھیں۔چہروں مہروں کی آرائش و زیبائش بھی کمال کی تھی۔بازاروں کی مخصوص باس نتھنوں میں گُھسی جاتی تھی۔ایک ہجوم تھا۔
آنکھوں کے سامنے تاریخ رقص کرنے لگی تھی۔ صدیوں پرانا بازار کوئی سولہویں صدی کے وسط کا جہاں وینس اور دوسرے شہروں کے ڈھیلے ڈھالے گھٹنوں اور ٹخنوں کو چھوتے لباسوں والے تاجر آکر منڈیاں لگاتے ۔جہاں مصرکے مصالحے بکتے۔
مجھے تو چیزیں یہاں سستی لگیں۔ بادام خریدے۔پستہ لیا۔ پھولوں اور پھلوں کی منڈی بھی راستے میں دیکھی۔پھلوں اور سبزیوں کی دنیامالٹے ،انجیر،انار ،چکوترے ڈھیروں ڈھیر پڑے تھے۔زورو شور کی آوازیں تھیں۔سیب خریدے تو پتہ چلا کہ اونیہ کے ہیں۔
’’ارے اونیہ جانا تو مقدر سے ہوگا۔چلو پہلے اس کے سیب تو کھائیں۔‘‘
تربوز بھی کیا جہازی سائز کے تھے۔ہماری حیرت پر کِسی نے کہا تھا۔
’’ارے دیاربکر کے ہیں۔شہد جیسے میٹھے اور کرکرے سے۔کھائیں گی تو جنت کے پھل کا گمان ہوگا۔‘‘
جی تو بڑا چاہا اوڑھنی اتاریں۔بازو اوپر کریں اور کِسی سے چاقو چھری مانگ کر ابھی یہیں جُت جائیں۔آسمانی جنت کے پھل تو اوپر والے کی مرضی اور نظر عنایت ہوگی تو منہ میں جائیں گے پر اِس ارضی جنت کے مزے تو لوٹیں۔
پر یہ سیما جو ہے نا نری بیگم اِس فورکلاس عوامی مظاہرے پر رضامند ہی نہ ہوئی۔اُس کے میرے چپڑ قنایتوں جیسے رنگ ڈھنگ اور سڑکوں گلیوں میں چلتے پھرتے منہ ماری سے ایٹی کیٹس کی الرجی شروع ہوجاتی تھی۔ ایک طرف سبزیوں کے ڈھیر تھے۔سلاد کے پتے ،چقندر،آلو،پیاز اور خوش رنگ چمکیلے بیگن۔
رات کا کھانا جس ریسٹورنٹ میں ہم کھاتی تھیں۔اُس کا ویٹر ہمیں ہر روز ترکوں کے کھانے پینے کے ذوق و شوق اور پسندیدہ ڈشوں پر چلتے پھرتے چار لفظ بتاتا رہتا۔بیگن ترکوں کی ہی نہیں ہمارے سلطانوں کی بھی محبوب و مرغوب سبزی رہی ہے ۔پتلیکن ( بیگن ) سے بیسیوؤں قسم کے کھانے بنتے ہیں۔
ہکا بکّاسی میں اپنے ہاں کی اس راندہ درگاہ جامنی رنگی سبزی کی عزت افزائی کے قصیدوں پر یہی کہہ سکتی تھی نا کہ بھئی دل آئے گدھی پر تو پری کیا چیز ہے۔
گھوڑا گاڑیاں، کھوتے ،ریڑیاں سروں پر اٹھائے بڑے بڑے چھابے سب کچھ یہاں نظرآتا تھا۔ایک بدنظمی اور الجھی پھنسی مانوس سی دنیا جسے دیکھ کر اپنایت محسوس ہوئی تھی۔ ازمیر کی انجیر اور کشمش کا بھی بڑا شہرہ تھا۔تھوڑی سی وہ بھی خریدی۔ یہیں قریب ہی پالتو پرندوں کی مارکیٹ بھی تھی۔
ایک چھوٹی سی ڈھلانی گلی سے گزرے ۔کیا خوبصورت پرانے تاریخی گھر بلندو بالا بالکونیوں والے چوبی اور آہنی جنگلوں والے ۔کہیں کسی میں کوئی عورت اور کہیں بچے کھڑے تھے۔کہیں پھول نظروں کو لبھاتے تھے۔کہیں خستگی درودیوار پر جھلکتی تھی۔ کہیں دُھلے ہوئے کپڑے اڑے ترچھے رُخ پر لگی تاروں پر سُوکھتے تھے۔ کہیں تنگ گول پتھروں والی ڈھلانی سڑکیں تھیں ، کہیں مڑتے کونے اور کہیں کشادہ راستے، کہیں کشادہ چوباروں کی بناوٹ اور کھڑکیاں بھی مختلف وضع کی جدید اور کہیں قدامت کا رنگ لئیے۔کہیں رنگ و روغن نیا نیا تھا اور کہیں سال خوردہ۔
پھر ایک خوبصورت منظر ہماری آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا۔ایک عظیم الشان تعمیراتی حسن مسجد کی صورت میں جاہ و جلال کی کرنیں پھینکتا پہلی باردیکھنے والوں کے پاؤں ساکت کرتا تھا۔ہم ایک بڑے سے پختہ میدان میں کھڑی ہونٹوں پر چپ اور آنکھوں میں حیرتیں لئیے ہوئے اُسے دیکھتی تھیں۔وسیع و عریض گروانڈ میں اترتی شام کی نرم دھوپ میں بچے فٹبال کھیل رہے تھے اور شور مچاتے تھے۔
شام کے سورج کی زرنگار کرنیں درختوں اور بوٹوں میں گُھس کر انہیں عجیب سی زرنگاررعنائی بخش رہی تھیں۔آگے بڑھنے سے ہماری آنکھوں کے سامنے اپنے بڑے اور
اطراف میں چھوٹے چھوٹے مٹیالے رنگوں والے گنبدوں کے ساتھ وسیع و عریض باغ کے وسط میں تمکنت سے کھڑی مسجد اپنے بقیہ خدوخال کھولنے لگی تھی۔اس کے چار مینار اس کے کونوں میں پاسبانوں کی طرح ایستادہ تھے۔کسقدر مرعوب کن عمارت تھی۔
داخلہ مغربی جانب کے مرکزی صحن سے ہوا۔صحن کو گھیرے میں لینے والے پورٹیکو کے گرینائٹ اور سنگ مر مر کے ستونوں کی خوبصورتی اور شان بڑی نرالی تھی۔ اندر جا کر تو اس کی گھمبیرتا،اس کا جلال و جمال اس کی متاثر کن رعنائیاں اور زیبائیاں یوں سامنے آئیں کہ بہت دیر تک ششدر سے کھڑے رہے۔محرابی صورت لئیے دودھیا شیشوں والی کھڑکیوں سے روشنیاں اندر آرہی تھیں۔ فرشوں پر بچھے شوخ و شنگ قالینوں کی خوش نمائیوں نے براؤن ہلکے اور اف وائٹ رنگوں سے مل کر انتہائی دلکش تاثر ابھارا ہوا تھا۔
مسجد گرینائٹ اور سنگ مرمر کے ستونوں پرتعمیر ہے جس میں محرابی صورت والے راستے شگافوں کی صورت نکل کر اس کی خوبصورتی دو چند کرتے ہیں۔نقش و نگاری اور قرآنی آیات کی کندہ کاری بھی دلکشی بڑھاتی تھی۔طاق اور دو محرابیں سفید پتھر کی ہیں۔رنگین شیشے اور کھڑکیاں سولہویں صدی کے آرٹ کے نمائندہ ہیں۔اس کے خالق سنان نے ایک بار کہا تھا۔اس مسجد کی تعمیر نے اُسے بہت سارے تعمیراتی رموز سکھائے۔ کتنا بڑا اور عظیم کام۔
مسجد کے بارے میں دو باتوں کا انکشاف ہمارے لئیے حیران کن تھا۔ایک نوجوان جوڑا بھی اسے دیکھنے آیا ہوا تھا۔بڑی دلکش لڑکی اور لڑکا بھی کچھ ایسا ہی اُس کے پلّے کا۔ استنبول کی جدید مضافاتی آبادی او رتا کوئے سے تھے۔انگریزی میں اچھے رواں تھے۔یہ دلچسپ بات انہی سے پتہ چلی کہ اس مسجد کی ایک اہم خصوصیت اس کے اندر بولے جانے والی آوازیں نغمگی کا سا تاثر رکھتی ہیں۔عصر کی نماز پڑھی۔سجدوں میں کیسی عبودیت تھی۔آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔
مسجد کے پہلو میں سے ہی گزر کر ہم اُس عظیم شہنشاہ، اس عظیم ہستی کا چھوٹا سا گھر دیکھنے چلے گئے ۔وہ ہستی جس کا رعب و دبدبہ تین براعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔جس کی شجاعت اور دلیری کی داستانوں نے مغرب کو گنگ کیے رکھا ۔ محراب سے ملحقہ دیوار سے ملے ہوئے آیات قرآنی سے سجے کمرے میں سبز چادروں سے ڈھانپا خاک کی ڈھیری بنا پڑا تھا۔
دل بوجھل سا تھا انسانی عظمتوں اور معرکوں کا انجام بس یہی دو گز زمین کا ٹکڑہ۔کوئی سمجھے تو ۔بس ساری بات سرخروئی کی ہے۔کون صدیاں گزر جانے پر بھی زندہ ہے اور دلوں میں بستا ہے۔قریب ہی اُس کی محبوب بیوی حورم محو خواب ہے۔جو ایک روسی کسان کی بیٹی اور سلیم دوم کی والدہ تھیں۔ایک ذہین اور زبردست عورت جس کی مملکت کے کاموں میں مداخلت اور اثر اندازی نے عثمانی تاریخ کومتاثر کیا۔
سلیمانیہ مسجد کے شمالی جانب شاہی قبرستان میں اِس اتنی شاندار تعمیرکا خالق بھی سو رہا تھا۔ یہاں شاہی گھرانوں کے دیگر افراد بھی مدفون تھے۔قبریں تھیں یا آرٹ کے شاہکار تھے۔ جو اسی کے دماغ اور ہاتھوں نے بنائے۔ فاتحہ پڑھی۔سب کیلئے دعائے خیر کی۔ عمارات کی دنیا کا ایک عظیم نام سنان جوکہ Kayseri کے غیر مسلم گھرانے کا بیٹا تھا۔ اس کی تعمیر سلیمان ذی شان سے پہلے کے سلطانوں کے پرانے محلوں کو مسمار کرکے ہوئی۔ جوڑا ہمارے ساتھ ہی تھا۔لڑکے نے میرے تاسف کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔آپ کو اس کے غریبانہ سے مقبرے کو دیکھ کر شاید دُکھ ہورہا ہے۔جانتی ہیں اُس نے کیا کہا تھا۔
’’اب ایک لکھنے والے یعنی ایک لکھاری اور بنانے والے یعنی معمار کے درمیان ایک خیال مشترکہ ہوتا ہے۔میرا وجود فانی ہے۔مگر میرا کام نہیں۔لوگوں کو مجھے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔میرا کام جو ہے۔‘‘
میں نے عظیم الشان مسجد کو دیکھا۔کیسی دانا بات ۔حکمت کے موتیوں سے بھری ہوئی۔ٹپ سے میری آنکھوں سے آنسو گرے۔ہاتھ دعا کیلئے اٹھے ۔سنان کیلئے ۔ایک عظیم انسان ،ایک عظیم فنکار کیلئے ۔فاتحہ پڑھی ۔دعائے خیر کی۔اور یہ بھی سوچا کہ اسلامی فن تعمیر میں نئے رنگوں اور نئی تہذیبوں کا حُسن شامل کرنے والے نے ایک جاندار روایت ورثے میں چھوڑی کہ میرے وطن کے دو بڑے شہروں کے لینڈ مارک مینار پاکستان اور فیصل مسجد ترک ماہر تعمیرات کے مرہون منت ہیں۔
پھر باغ کی سیر کی ۔اس سڑک کو دیکھا جو معمار سنان کے نام سے منسوب ہے۔ شام کیسے اپنا حسن وہاں لٹا رہی تھی۔یہاں کتنی طمانیت اورسکون تھا۔بلندو بالا درختوں کی نازک ٹہنیوں اور پتوں سے زوردار ہواؤں کی چھیڑچھاڑ زروں پر تھی۔اب لائبریری دیکھنے کی بھی جلدی تھی کہ وہ کہیں بند نہ ہوجائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں