پیدائش سے لیکر موت تک ہم جن تواریخ کا استعمال اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں، جب اُسی نئے عیسوی سال کا آغاز ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی پوسٹ گشت کرنا شروع کردیتی ہیں، یہاں تک کہ کفر ، گمراہی اور غیر اقوام کی اتبا ع تک کے فتوے بھی لگا دئے جاتے ہیں۔ تو کوئی کہتا نظر آتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اسلئے نئے سال پر خوشی نہیں مناؤں گا۔۔ جبکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فی زمانہ انگریزی کلینڈر کا استعمال ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ بجائے اسکے کہ شرعی حدود کا تجاوز کئے بغیر سال ِ نو کی خوشی کے اظہار کی بات کی جائے سرے سے اِسکا انکار ہی کردیا جاتا ہے۔ جسکے نتیجے میں ہماری نوجوان قوم دین ِ اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب تسلیم کرتے ہوئے اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کی خاطر حرام کاموں میں ملوث ہوتی نظر آرہی ہے۔ جب ہم اپنے نونہالوں ، عزیز و اقارب کے یوم پیدائش کا اہتمام کرتے ہیں، جب ہم گھر اور کاروبار کے افتتاح کے موقع پر خوشی ، مسرت اور جشن کا اہتمام کرتے ہیں، تو ہمیں کوئی فتوٰی یاد نہیں آتا ۔ لیکن جیسے ہی نئے سال کی آمد پر خوشی کے اظہار کی بات کی جاتی ہے تو ہمیں اسلام اور شرعی حدود کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ کیا اسلام اس قدر تنگ نظر مذہب ہے کہ جسکےماننے والوں کو اپنی سماجی اور ملی زندگی میں خوشی کے مواقع پر جائز طریقے سے مسرت اور شادمانی کا اظہار کرنے اور دو بول میٹھے بولنے تک کی اجاز ت نہیں؟؟
کیا یہ وقت کی ضرورت نہیں کہ ملت کے ذمہ دار دانشور حضرات آگے بڑھیں اور نوجوان نسل کو گمراہی سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ عمل کس طرح ناجائز ہوجائےگا کہ اگر کوئی اپنے دوستوں یا اہل عیال کے ساتھ مل بیٹھ کر نئے سال کا استقبال اس انداز میں کرے کہ قرآن خوانی، محفل درود، حمد و نعت و منقبت اور دیگر سبق آموز کلام کو سنا جائے، مٹھائی اور کیک تقسیم عمل میں آئے۔ نئے سال کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا جائے ، نیا سال مبارک کہا جائےاور آنے والے ایام کیلئے خصوصی دعا کی جائے؟؟؟
ایسا کیوں ہے کہ ساری زندگی سر سے لیکر پاؤں تک ، ہم غیر اقوام کی ایجاد کردہ ہر چیز کا استعمال جائز سمجھتے ہیں لیکن جب اِن ایجادات ، مصنوعات اور ایام پر خوشی یا تعریف و توصیف کے ذریعہ اُنکی قدر کے اظہار کی بات آتی ہے تو ہمیں اسلام یاد آجاتا ہے۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں