کیا کھویا؟کیا پایا؟۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ماریہ نقاش

وقت کی شاخ سے لمحے اور پل شب و روز بن کر ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے رہے اور یہ شجر ماہ و سال کی پت جھڑ سے کب آزاد ہو گیا پتہ ہی نہ چل سکا… پورے سال کے بارہ مہینوں کی یہ مالا کب ایک ایک موتی کر کے ہاتھوں کی قید سے آزاد ہو کر زندگی کا ماضی بنتی گئی ۔ وقت کے ساحل پر کھڑے کھڑے کب لمحات کی نرم و ملائم ریت پیروں تلے سرکتی رہی اندازہ ہی نہ ہو سکا۔صبح و شام، دوپہر اور رات۔۔پل پل بدلتے موسموں کے سمندر میں کب طلاطم برپا ہوا، کب لمحات کی لہریں ساحل کو چھو کر ہماری دوپہر کو بھگو کر ہماری راتوں کو سرد کر کے واپس لوٹ گئیں بالکل معلوم ہی نہ ہو سکا۔
وقت کی گھڑی ٹک ٹک کر کے شب و روز کے بیتنے کا احساس دلاتی رہی مگر ہم محسوس ہی نہ کر سکے۔ ہر روشن صبح رات کے اندھیرے کی بھینٹ چڑھتی رہی، ہمیں اندیشہ تک نہ ہو سکا اور سال بیت گیا۔ موسموں کے دامن میں خزاں کے بعد بہار کا بسیرا ہوا۔ کلیوں نے کھل کر مرجھانا بھی شروع کر دیا۔ پرندوں نے آشیانے بنا کر چھوڑ بھی دیے۔سرد علاقوں سے ہجرت بھی کر گۓ لیکن ہمیں اندازہ بھی نہ ہوسکا کہ سال ختم ہونے کو ہے۔اذان سحر تاریک رات کا سکوت چیر کر نمود صبح کا پتا دیتی رہی۔ایک ایک کر کے دن گزرتے رہے لیکن ہمیں احساس تک نہ ہو سکا اور وقت بیت گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غروب آفتاب کی سرخی مدھم پڑتے پڑتے بے نشاں ہو کر دن بیتنے کا پیغام دیتی رہی لیکن ہم سن نہ سکے اور اک اور سال یونہی بیت گیا۔کہیں نہ کہیں،ہر کوئی، اپنے پیاروں کے ساتھ مصروف عمل رہا۔ کبھی ان کے کھانے کا خیال، کبھی ان کے سونے اٹھنے کا خیال، کبھی ان کی پسند نہ پسند کا خیال، کبھی ان کی خوشی کا خیال، بس یونہی۔۔ وقت پر لگا کر اڑ گیا  اور شب و روز بیکار جاتے رہے۔ہر کوئی کسی نہ کسی کے ساتھ کبھی نہ کبھی،کم یا زیادہ، مصروف رہا۔۔۔ کسی کام میں،کسی خیال میں،کسی فکر میں،کسی سوچ میں،ہر کوئی اپنی ہی دھن میں مست رہا، اور وقت آنکھ چرا کر دبے پاؤں نظروں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا۔
پورا سال کاموں میں اپنوں کی خوشی کھوجنے میں،زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے،پیسہ اور آسائشیں کمانے میں گزر گیا۔۔پر آخر میں جب اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا،اپنے وجود پر اپنی روح و جان پر نظر دوڑائی تو خود کو خالی ہاتھ پایا۔
پورا سال دوسروں کیلئے بھاگ دوڑ کی مگر۔۔۔۔۔
اپنے لیے کیا کیا؟؟
نہ راتوں کو قیام کیا۔۔نہ دن کو نوافل۔۔نہ فلاحی کام نہ محاسبہ نفس، توکیا حاصل کیا پورے سال میں اتنا مصروف رہ کر بھی؟؟
کیا اپنوں کی خوشی؟؟ مگر وہ تو عارضی ہے صرف تب تک جب تک آپ ان کے آرام و خوشی کا ذریعہ ہیں۔۔
پھر کیا حاصل کیا؟؟
مال؟؟؟ یہ تو یہیں رہ جانا ہے تمہارے پیچھے یہ تو دوسروں کی آسائش کا ذریعہ ہے۔
پھر کیا خریدا؟ کیا حاصل کیا؟ محبت؟۔۔۔۔
یہ تو جذبات کا نام ہے۔۔ اور جذبات تو پل پل بدلتے رہتے ہیں۔آج خوش ہیں آپ تو کل غم زدہ۔۔ابھی پیار سے بات کررہے ہیں تو کچھ وقت کے بعد پیار کے جذبات کی جگہ غصہ ۔۔ تو جذبات تو نام ہی پل پل بدلتی کیفیت کا ہیں۔ تو اس عارضی اور وقتی جذبے کا حصول سال بھر میں بھی ممکن نہ ہوا تو کیا حاصل کیا ہم نے۔
صرف خسارہ!!جی ہاں! قارئین صرف خسارہ۔۔گھاٹا اور صرف نقصان۔۔۔کیوں کہ حقیقی چین خوشی اور محبت کے حصول کیلئے تو ہم نے وہ عبادت سال بھر میں شاید اک شب بھی نہیں کی جو ساتھ دیتی ہے اس زندگی کے بعد جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے  اور اصل زندگی تو وہی ہے۔۔
اپنی عارضی زندگی کا ہر ایک قیمتی لمحہ قیمتی دن ہم جن کاموں اور جن لوگوں کے نام کرتے رہے کیا وہ ہمیں ہمارے مرنے کے بعد نیک اعمال اور دعاکی صورت میں نفع دے سکتے ہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو بہتر ورنہ اپنی اس مختصر زندگی کا اک پورا دن آپ اپنی ابدی زندگی کے سوسال کے برابر ایک دن کو اچھا یا برا بنانے میں صرف کرنے سے پہلے ذرا کچھ پہر سوچ بچار کر لیں تو سب سے بہتر ہو گا۔تو سال کے آخری دنوں میں محاسبہ کر لیتے ہیں خود کا  کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟؟؟اور اگلے سال کیا کھونا ہے اور کیا پانا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply