مُنڈاسہ۔۔۔۔۔علی آریان/افسانہ

کمرے میں ’’ چوبٹ ‘‘ ابھی جاری تھی کہ مسعود نے دوستی پہ بحث کا آغاز کر دیا اور اُس کی دیکھا دیکھی ریاست ‘ عارف ‘ فضل داد ‘ طارق اور راجا صاحب بھی اِس بحث میں شامل ہو گئے ۔۔۔ مسعود کہہ رہا تھا

’’ فی زمانہ دوستی کیا ہے ؟ وقت گزاری ہے بس ! ریاست اپنے گھر سے کھاتا ہے ‘ میں اپنے گھر سے ‘پھر یہ کیا ’’ ٹچر ‘‘ ہے یار ؟ ‘‘ اُس کی بات ختم ہوئی تو ریاست کہنے لگا ۔۔۔۔ ’’ ہم چار یار بھی یہاں اِس لیے جمع ہو جاتے ہیں کہ معاشی پسِ منظر ایک جیسا ہے ۔۔ آج کسی کے پاس پیسہ آ جائے تو پھر دیکھنا اُس کی مصروفیت ہی کُچھ اور ہو گی اور ۔ ‘‘ ابھی وہ کُچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ طارق نے اُس کی بات کاٹ دی اور بولا ۔۔۔۔ ’’ دولت آنے کے بعد پہلا کام ہی یہی کرتی ہے کہ آپ سے وہ وقت بھی چھین لیتی ہے جو آپ کا خود سے ہم کلام ہونے کا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’’ اَوئے کیا بات کی ہے تو نے طارق ۔۔۔ بات کی ہے کہ چائے پی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہک خاہ ! ‘‘ نائیک فضل داد نے پہلے تعریف اور پھر آہ بھری ۔۔ ’’ میرے بھی کئی یار تھے  ہم صُبح بیٹھتے ، شام کو اُٹھتے ، رات کو کالج سے گیارہ بجے چُھٹی کرتے ۔آج سب خواب لگتا ہے ، کتنے دوست ایسے تھے کہ جن کو اپنے پلے سے رقم جمع کروا کے باہر بھیجا  ۔۔ کہتے تھے ۔۔۔ نائیکا تو نال نہ ہوا تو یورپ جانے کا فائدہ ؟ اَج وی وی ورھے ہونے کو آئے ، مُجھے اپنے پاس بُلانا تو درکنار ، خط تک نہیں لکھا اُنہوں نے ۔۔ ‘‘ اِتنا کہتے ہی نائیک فضل داد شرمندہ سی ہنسی ہنس کر رہ گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عارف جو چُپ بیٹھا تھا اپنی اُکی ڈال کر کہنے لگا ۔۔ ’’ میرے ساتھ معاملہ بڑا عجیب سا رہا ہے ۔ جس کسی نے مُجھ سے ہنس کر بات کی   میں اُسی کے سنگ ہو لیا ،بڑی دیر کے بعد جا کے یہ مُجھ پہ کھلا کہ ہر مُسکرانے والا دوست نہیں ہوتا ‘‘ اُس کی بات سُنتے ہی راجا صاحب نے حُقے کا ایک طویل کش لیا اور پھر کہنے لگے  ’’ اَو یارو! کیا بات کرتے ہو ۔۔تم لوگوں کو میرا دوست فانی تو یاد ہی ہو گا ۔۔۔۔۔ کیسی گُوڑھی سنگت تھی میری اُس کی ۔ ‘‘
’’ فانی!!! کون فانی؟؟؟ ۔۔۔۔ اچھا اچھا ۔۔۔۔ وہ نیلی آنکھوں والا   جس کے پاس شیراڈ گاڑی تھی ۔۔ ‘‘ راجا صاحب کی کھوئی ہوئی آنکھیں دیکھتے ہی مسعود کو فورا ہی یاد آ گیا ۔ ’’ ہاں وہی فانی ! جس کے بغیر سانس لینا بھی میں مُشکل سے ہی گوارا کرتا تھا ۔ جب وہ یہاں تھا تو بھی لوگ مُجھے اَکثر کہا کرتے تھے ۔
کہ اَمیر اور غریب کی دوستی نہیں چل سکتی   مگر میں اِسے مانتا نہ تھا کیونکہ وہ دل کا بھی اُتنا ہی اچھا تھا ۔پھر ہوا یہ کہ وہ یورپ چلا گیا  اِس دوران اُس کے خط بھی باقاعدگی سے آتے رہے ،  کوئی چار سال  اُدھر کی بات ہے ۔ وہ طویل مُدت کے بعد چُھٹی لے کے وطن واپس آیا تو اُس نے مُجھ سے بالکل رابطہ ہی نہ کیا ۔
حالاں کہ اُس کا گھر میرے گھر کے بالکل سامنے والی گلی میں تھا ۔ ‘‘ اِتنا کہہ کر راجا صاحب نے پھر حُقے کے دو چار لمبے لمبے سُوٹے لیے اور پھر کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے ’’ جب اُسے آئے ایک ہفتہ گزر گیا   اور میری ‘ اُس کی مُلاقات نہ ہو سکی تو میں خود ہی ’’ بھیڑا ‘‘ سا مُنہ لے کے اُس کے گھر پہنچ گیا ۔ میں نے بوہے پہ دستک دی تو اُس کی والدہ باہر نکل آئیں ۔ میں نے پوچھا ۔۔۔ ’’ ماں جی! فانی ہے گھر؟‘‘ کہنے لگیں ۔۔ ’’ ہاں ہے تو سہی ! پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے ۔ ‘‘ میں نے پُوچھا ۔۔ ’’ کون سے دوست ؟ اُس کا دوست تو میں ہی ہوں ۔۔۔ ‘‘ فرمانے لگیں  ’’ اُس کے ساتھ ہی کہیں ’’ باہر ‘‘ سے آئے ہیں ۔۔ اِدھر ہمارے گھر ہی ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ میں نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ’’ ماں جی! فانی سے مُلاقات ہو سکتی ؟؟ ‘‘ اچانک میری بات کاٹ کر بولیں ۔۔۔ ’’ تم ایسے کرو! پرسوں اُس کی واپسی ہے   شام کو میں خود ہی اُسے تمہارے گھر بھیج دوں گی ۔۔۔ ‘‘ سنگیو! اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے بوہا بند کر دیا ۔۔۔ نہ پُچھو! اُس روز میرا کیا حال ہوا ؟ یعنی باہر سے آئے دوست مُجھ سے اہم ہو گئے ۔
راجے سے اہم ہو گئے ۔۔ آخر کیسے ؟ وہ راجا جو فانی کے ہر دُکھ درد کا ساتھی تھا ؟ خیر! میں مایوس سا ہو کر اپنے گھر لوٹ آیا ۔۔ پھر اگلے دو روز میں گھر ہی رہا کہ ہو سکتا ہے وہ میری طرف نکل ہی آئے ۔
مگر ایسا کُچھ نہ ہوا ۔۔ پھر جس شام اُس کی واپسی تھی ۔۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور میری طرف آئے گا ۔ میں شام سات بجے تک اپنے گھر ہی بیٹھا رہا  اور جب وہ شام ڈھلے تک بھی نہ آیا تو میں خود ہی اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا یہ سوچ کے کہ اپنا پستول ہی مرزے کے گھر سے لے لوں   ابھی میں مرزے کے گھر سے اپنا پستول لے کے ایک ویران سی گلی سے نکل ہی رہا تھا کہ میں نے اَندھیرے میں قدموں کی چاپیں سُنیں اور جب تھوڑی سی ’’ لَو ‘‘ ہوئی تو میں نے دیکھا   میرا دوست بریف کیس ہاتھ میں اُٹھائے منی چینجروں والی گلی سے اِسی گلی میں مُڑ رہا تھا ۔۔ اَچانک ایک سایہ سا لہرایا ۔۔۔ اور اُس کے بریف کیس پر کسی نے ہاتھ مار کر وہ بریف کیس اُچک لیا ۔ پھر اِس سے پہلے کہ میرا دوست سنبھلتا   وہ سایہ بریف کیس اپنی چادر میں لپیٹ کر ایک طرف دوڑ پڑا   اَب اِتفاق ایسا کہ وہ سیدھا میری طرف ہی آ رہا تھا ۔۔۔ میں نے پستول اپنے ’’ ڈب ‘‘ سے باہر نکال کر آئو دیکھا نہ تائو اُس کی سمت دو فائر جھونک دیئے   بریف کیس ٹھگ کے ہاتھ سے نکل گیا اور وہ خود کسی ذیلی گلی میں گُھس کر غائب ہو گیا ۔ میں نے اپنے چہرے کے گرد ’’ مُنڈاسہ ‘‘ سا لپیٹ لیا تھا ۔ میرا دوست چلتا ہوا میری طرف آیا اور کہنے لگا ۔’’ بہت بہت شکریہ جنابِ عالی! آپ نے میری بیس لاکھ کی رقم بچا لی ۔ ‘‘ میں زمین پہ پڑا بریف کیس اُس کے حوالے کر کے مُڑنے ہی لگا تھا کہ اُس نے ممنون نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر بولا ۔ ’’ جناب! کیا میں اپنے مُحسن کی شکل دیکھ سکتا ہوں ۔۔ کہیں میں اِس سعادت سے محروم نہ رہ جائوں ۔ ‘‘ اِتنا کہتے ہی وہ میرا مُنڈاسہ اُتارنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ میں نے اپنا پستول پھر اُس کی طرف سیدھا کر دیا اور کہا ۔۔۔۔۔ ’’ خبردار!!!‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply