چوہا فرائی۔۔۔۔علی اختر

آج شاہی میرے پاس بہت دن بعد آیا ۔ چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا ۔ مجھے دیکھتے ہی خوشی سے چہکا، ” یار تمہیں ایک بہت ہی بہترین رپورٹ پڑھوانی ہے “۔ یہ کہتے ہوئے ایک اخبار میرے سامنے کر دیا۔  اخبار میں بھارتی علاقے آسام سے متعلق ایک رپورٹ تھی ۔ جسمیں بتایا گیا تھا کہ  آسام کے لوگ چوہے کا گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں ۔ وہاں کے کسان مختلف پھندے اور چوہا دانیاں لگا کر فصلیں کھانے کے لیئے آنے والے چوہے پکڑتے ہیں اور پھر بعض کو زندہ حالت میں اور بعض کو کاٹ پیٹ کر صاف کرنے کے بعد مارکیٹ میں فروخت کے لیئے لے آتے ہیں ۔

“بھائی کھانے والے کہتے ہیں کہ  اگر صحیح طرح پکایا جائے تو بالکل مٹن کی طرح لذیز ہو جاتا ہے ۔ بھائی  میرے تو منہ میں پانی بھر آیا پڑھتے ہی” شاہی اشتہا انگریزی کے ساتھ بولا ۔

“شاہی ! کچھ خدا کا خوف کرو ۔ صبح صبح یہی بات بتانی رہ گئی  تھی”. میرا دل خراب ہو گیا تھا سنتے ہی ۔ چھٹی کے دن حلوہ پوری کا پروگرام تھا ۔ لیکن شاہی کی غلیظ گفتگو سننے کے بعد جیسے بھوک ہی اڑ گئی تھی۔

” ویسے بھائی ! یہ تو بتا کہ  اس میں برا ہی کیا ہے ۔ سوچو کتنی بڑی غذائی  ضرورت پوری ہو جائے گی ۔ ” شاہی اب بھی ڈھٹائی کے عروج پر تھا ۔

” برا ، شاہی تم ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہو گندے آدمی ” میں نے براسا منہ بنا یا ۔

” ابے ! گندہ گھی کھانے والے، پریشر والے گوشت کے کباب بنانے والے، مری ہوئی  مرغیاں ، گدھے کچھ بھی نہیں چھوڑا تو نے اور چوہے پر ایسا منہ بنا رہا ہے جیسے تیرے سے بڑا حاجی کوئی  نہیں ” شاہی نے اچھی خاصی جھاڑ پلادی۔

“یار یہ بات تو ٹھیک شاہی پر یار، جانتے بوجھتے ہوئے چوہا کون کھاتا ہے۔ ” مجھے الٹی آنے والی تھی۔

“کون کھاتا ہے۔! ارے یہ سب بہت آسان ہے ۔ تمہیں چوہا ذبح کرتے ہوئے ایسا سوچنا ہوگا جیسے مرغی پر چھری چل رہی ہے، اسے پکاتے ہوئے مٹن کڑاہی کا تصور کرنا ہوگا اور چباتے ہوئے بیف بوٹی کا خیال دل میں لانا ہوگا اور بس ۔ ارے میاں ! مزے کرو گے ۔ انگلیاں چاٹتے رہ جاوگے ۔ ” شاہی کے چہرے پر کمینگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔

“شاہی ! بس کردے یار اتنا خطرناک تصور کون کرے گا ” میری بس ہو چکی تھی اب۔

” یاد دیکھ! ملک میں الیکشن ہوا تو ،تو نے سمجھا جمہوری عمل ہے، نواز شریف جیل گیا تو سمجھا انصاف مضبوط ہو رہا ہے اور اب انور مجید، ملک ریاض ٹائپ لوگ بھی اندر ہونگے ، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، راؤ انوار وغیرہ گرفتار ہوتے ہیں تو سمجھتا ہے اب لٹیرے قاتل احتساب کے دائرے میں آئیں گے ، ماورائے عدالت قتل نہیں ہونگے، تیری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ  پھٹی قمیض دیکھ کر تجھے نجات دہندہ دکھتا ہے ۔ا رے تُُو  تو ماسٹر ہے ان تصوراتی چکروں کا ۔ اب شرافت سے آنکھیں بند کر ،تصور میں چکن کی کوئلہ کڑاہی لا اور یہ خاموشی سے یہ چوہا فرائی  ٹرائی کر ۔ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس”

شاہی نےمسراتے ہوئے ساتھ لایا ہوا ڈبہ کھولنے کی کوشش کی ” آج ہی پکڑا تھا۔ بالکل فریش ہے جانی ۔ کالی مرچ میں بنایا ہے تمہاری بھابی نے ۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اور میں شاہی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہاں سے بھاگ چکا تھا ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply