پستان اور مرد ۔۔۔ حسن کرتار

“تیرے پستانوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے!”

ہائے  تمہاری آنکھیں تمہاری زلفیں تمہاری کمر یہ چال۔۔۔ ایسی یا اس سے ملتی جلتی باتوں سے اردو شاعری اور لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ مگر پستانوں کے متعلق بہت کم باتیں ہوئیں یا ہوئیں تو ڈھکے چھپے الفاظ میں ہوئیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ ایسی باتوں کا ہمارے معاشرے میں مذاق اڑایا جاتا ہے یا انہیں ولگر سمجھا جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ جبکہ سب جانتے ہیں جتنا مرد بالخصوص دیسی مرد پستانوں کے دیوانے ہیں شاید ہی کسی اور چیز کے ہوں!

محبوب کے یا لڑکی کے فگر کو شاعری میں بیان کرنا کوئی اتنی پرانی رسم نہیں۔ پرانے دور میں یا چند صدیاں پہلے تک ننگے مجسمے تو بناۓ جاتے رہے ہیں البتہ لٹریچر میں اپنے محبوب کے فگر کو کھل کر بیان کرنے کا سہرا لارڈ بائرن کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پہلی دفعہ عورت کے جسم کو یا عورت کے جسم کی گہرائیوں کو کھل کر موضوع بنایا۔ پھر اس کے بعد ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ بات فرائیڈ تک آپہنچی جس نے انسانی جسم تو جسم انسانی کیفیات کا بھی کھل کر آپریشن کیا۔

بات ہو رہی تھی پستانوں کی۔ مردوں کو خواتین کے پستان کیوں اتنے پسند ہوتے ہیں؟ جبکہ مردوں کے مقابلے میں کم سہی مگر ذاتی پستان بھی ہوتے ہیں۔ پھر بچہ پیدائش کے بعد سے لے کر کافی عرصے تک اپنی ماں کے پستانوں سے نہ صرف خوراک اور زندگی حاصل کرتا ہے بلکہ ان سے کھیلتا بھی ہے انہیں کاٹتا بھی ہے غرض طرح طرح کی چھیڑ خانیاں کرتا ہے۔ یعنی پستان انسان کا پہلا کھلونا ہوتے ہیں۔

سائیکولوجی کے مطابق کچھ ایسا ہے کہ بچے سے جب ماں کا دودھ یا پستان چھڑاۓ جاتے ہیں تب اس میں پہلی دفعہ جدائی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس سے اس کی سب سے عزیز چیز چھن گئی ہو۔ پھر اس کے بعد بچہ تمام عمر اپنی اس کمی کو طرح طرح کے طریقوں سے پورا کرتا رہتا ہے۔ مثلا ً کہا جاتا ہے کہ سگریٹ پینا، ناخن چبانا یا اس طرح کی کوئی بھی منہ سے کی جانے والی سرگرمی دراصل بچپن میں ماں کے پستانوں سے ہوئی جدائی کا ردعمل یا کتھارسس ہوتا ہے۔

آپ فلمیں دیکھ لیں، اشتہار دیکھ لیں۔ خواتین کے پستانوں کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نوجوانوں کی کوئی بھی ذاتی محفل میں شرکت کریں جہاں خواتین یا لڑکیوں کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں پستانوں کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ اکثر نوجوان لڑکے جب بالغ ہو رہے ہوں تو ماسٹربیشن کرتے وقت عموما ً ان کے ذہن میں کسی نہ کسی کے پستان ہی ہوتے ہیں۔ خواتین ہم جنس پرستوں میں بھی پستان ویسے ہی مقبول ہوتے ہیں جس کے باعث ہم کہہ سکتے ہیں کہ پستان صرف مرد کی کمزوری نہیں ہوتے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پستان محض جسم کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اکثر خواتین ایتھلیٹس کے پستان یا بہت چھوٹے ہوتے ہیں یا عام خواتین کی نسبت بہت سخت ہوتے ہیں۔ یعنی مسلسل ورزش بھی ان پر ایک طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔

پھر کچھ خواتین کے پستان قدرتی طور پہ چھوٹے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین میں ایک خاص قسم کا احساس ِ کمتری بھی پیدا ہو جاتا ہے، گو یہ احساس ِ کمتری اتنا ہی بےمعنی اور فضول ہوتا ہے جتنا کسی لڑکے یا مرد میں اپنے آلہء تناسل کے چھوٹا یا دوسروں سے چھوٹا ہونے کا احساس ِ کمتری ہوتا ہے۔

پستان یا بریسٹس کے لیے گلی محلے میں بہت عجیب الفاظ ہیں یا یوں کہیے کہ ہم نے بنا دیے ہیں حالانکہ ہیں تو جسم کے حصوں کے نام ہی۔ جہاں ایک طرف یہ مفید ہیں وہی دوسری طرف متنازعہ بھی ہیں۔ اکثر کلچرز میں خواتین انہیں کپڑوں سے چھپا کر رکھتی ہیں۔ کچھ پرانے کلچرز میں انہیں بالکل کھلا چھوڑا جاتا ہے جبکہ مغربی تہذیب یا چند اور ترقی یافتہ معاشروں کی خواتین انہیں فیشن کے طور پر کھلا یا ادھ کھلا چھوڑ دیتی ہیں۔

ان معاشروں میں بھی یہ ٹرینڈ کوئی اتنا پرانا نہیں کوئی ایک آدھ صدی پہلے ہی شروع ہوا۔ جب سے یورپ امریکہ میں جنسی انقلاب یا

سیکس ریولوشن نے زور پکڑا ہے وہاں کے لوگ دن بہ دن مکمل ننگے ہی ہوتے جارہے ہیں یا اکثر ننگا یا ادھ ننگا رہنا پسند کرتے ہیں۔

مشرق کے لوگوں کی اکثریت اسے بے حیائی سمجھتی ہے جبکہ ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ ان چیزوں کو جتنا اوپن کیا جائے اتنا انسانی نفسیات کیلئے بہتر ہوتا ہے۔ مشرق کے لوگوں کی باتیں سب کے سامنے ہیں۔ اپنی عورتوں کو ستر پردوں میں چھپا کر رکھنا پسند کرتے ہیں مگر دوسروں کی عورتوں کے پستان تو پستان پستانوں کی درمیانی لکیر تک ان کے دین و دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ 

اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مشرقی معاشرے یا پسماندہ معاشرے کتنی بڑی منافقتوں اور خود اذیتی سے دوچار ہیں۔

یاد پڑتا ہے ایک بار ایک سینئر دوست سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں انہیں بتایا کہ ایک اینتھرو پولوجی کی ریسرچ کے مطابق چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کو دنیا میں ہر طرف پستان ہی پستان نظر آتے ہیں۔ دوست جن کی عمر پچاس پچپن کے آس پاس ہوگی یہ بات سن کر تھوڑا سا مسکراۓ اور کہا:

Advertisements
julia rana solicitors

“ہمیں اب بھی دنیا میں ہر طرف پستان ہی پستان نظر آتے ہیں”۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply