دھوبی کا کتا۔۔۔ اعجاز بھٹی

مادی ترقی حاصل کرنے کے لئے ہمیں جن ،روشن راہوں ، کی طرف دھکیلا جا رہا ہے پچھلے بیس سالوں سے کیا ان ،روشن راہوں ،نے ہمیں وہ سبق بھلا دیا ہے جو ہمیں معاشرتی اقدار،عزت و احترام .شرم و حیا .اسلام سے محبت کے لئے رٹایا جاتا تھا اور ہمارے معاشروں میں عملی طور پہ نظر بھی آتا تھا۔یہ روشن راہیں جن پہ چل کے مادی ترقی کے آسمان کو چھونے کے باوجود آج وہ قومیں اخلاق و کردار اور باہمی رشتوں کی ان پستیوں میں گر چکی ہیں جن کے بارے میں ہمیں سوچتے ہوے بھی شرم آتی ہے۔آپ خود ذرا اپنے معاشرے پہ نظر دوڑائیں کہ جیسے جیسے مادی یا دنیاوی ترقی آتی جاتی ہے اخلاق و کردار ختم ہوتے جاتے ہیں۔
جو سبق ہمیں رٹایا گیا تھا جب تک ہم اس پہ عمل کرتے رہے ہم میں تہذیب ،تربیت ،دوسروں کا احترام ،شرم و حیا ،استاد کا تقدس دوسرے کے جذبات کا احترام اور بہت کچھ تھا۔یہ کون سی روشن راہیں ہیں جن پہ ہم ابھی پوری طرح چلے بھی نہیں کہ یہ سب چیزیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
تعلیمی نصاب سے دین ہی نکالا جا رہا ہے۔۔۔
تعلیم دی نہیں جا رہی بیچی جا رہی ہے۔۔
آئین کی شقیں عوام کو رٹائی جا رہی ہیں۔۔۔
انصاف دیا نہیں جا رہا بیچا جا رہا ہے۔۔۔
مریضوں کو گاہک سمجھا جانے لگا ہے۔۔
علاج کیا نہیں جا رہا ب۔یچا جا رہا ہے۔۔
تربیت نہ گھروں میں رہی نہ تعلیمی اداروں میں۔۔
احترام کیا نہی ںجا رہا خریدا جا رہا ہے۔۔
فرقہ بندی میں قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔۔
دین کمایا نہیں جا رہا دین سے کمائی کی جا رہی ہے۔۔
اور سب سے بڑی بیماری ،،آزادی اظہار راۓ،، اس کی آڑ میں جس کو مرضی ،دین کو، نبیوں کو، صحابہ کو ،بزرگان دین کو ،اسلامی اقدار کو غرض جس کو جو چاہے تبرا کرے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرے تو اسے انتہا پسند کہہ کے دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔
ان ہی روشن راہوں کی جھوٹی چکا چوند نے ہی مسلم معاشروں کو اس تنزلی کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں آگے بھی خون ہی خون نظر آتا ہے اور واپسی پر بھی مادی ترقی سے انکار کسی صورت نہیں کیا جا سکتا ۔یہ ہمیں ہر حال میں کرنا ہے اور ہر شعبے میں کرنا ہے ،لیکن اس کے لئے راستے بھی وہی اختیار کے جائیں جنہوں نے ترقی یافتہ معاشروں کو معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کی سیاہ ترین پستیوں میں پھینک دیا ہے۔
یہ بالکل ضروری نہیں ،بلکہ ہم مسلمانوں کے لئے یہ روشن راستے اندھی پستیوں کے سوا کہیں نہیں جاتے۔اپنے معاشروں میں اگر ہمیں باہمی محبت ،اخلاقی اقدار فرقہ بندی سے پاک دین اور قانون کی عملداری چاہیے تو ہمیں اس جدید تعلم و ترقی کے ساتھ ساتھ اس سبق کو بھی دوبارہ رٹانا ہو گا جو آج سے بیس سال پہلے تک ماں باپ تربیت کے نام پہ ،اساتذہ تعلیم کے نام پہ اور معاشروں کے بڑے، تجربے کی نصيحت کے نام پہ آنے والی نسل کو رٹایا کرتے تھے۔
دنیا میں جینے کے لئے مادی ترقی آج ناگزیر ہے جو ہر حال میں کرنی ہے لیکن ان ،روشن راہوں ،پہ چل کے نہیں بلکہ اسی سبق پہ چل کے جو ہمیں چودہ سو سال سے رٹایا جا رہا ہے .اور اگر اس سبق کو بھول کے صرف ان ،روشن راہوں ،پہ ہی دوڑتے رہے تو ..
نا گھر کے رہیں گے نا گھاٹ کے۔۔۔۔

Facebook Comments

Ajaz Bhatti
electronics engineer