گھر کے ،نہ گھاٹ کے

مادی ترقی حاصل کرنے کے لیے ہمیں جن  راہوں   کی طرف دھکیلا جا رہا ہے پچھلے بیس سالوں سے کیا ان  راہوں  نے ہمیں وہ سبق بھلا دیا ہے جو ہمیں معاشرتی اقدار،عزت و احترام،شرم و حیا،اسلام سے محبت کے لے رٹایا جاتا تھا اور ہمارے معاشروں میں عملی طور پر  نظر بھی آتا تھا۔۔۔؟یہ روشن راہیں جن پر  چل کر  مادی ترقی کے آسمان کو چھونے کے باوجود آج وہ قومیں اخلاق و کردار اور باہمی رشتوں کی ان پستیوں میں گر چکی ہیں جن کے بارے میں ہمیں سوچتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ،آپ خود ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں کہ جیسے جیسے مادی یا دنیاوی ترقی آتی جاتی ہے اخلاق و کردار ختم ہوتے جاتے ہیں۔جو سبق ہمیں یاد کروایا گیا تھا جب تک ہم اس پر   عمل کرتے رہے ہم میں تہذیب و تربیت،دوسروں کا احترام ،شرم و حیا،استاد کا تقدس دوسرے کے جذبات کا احترام اور بہت کچھ تھا.

یہ کون سی روشن راہیں ہیں جن پر ہم ابھی پوری طرح چلے بھی نہیں  کہ یہ سب چیزیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔تعلیمی نصاب سے دین ہی نکالا جا رہا ہے،تعلیم دی نہیں  جا رہی بیچی جا رہی ہے،آئین کی شقیں عوام کو رٹائی جا رہی ہیں،انصاف  بَک رہا  ہے،مریضوں کو گاہک سمجھا جانے لگا ہے،تربیت نہ گھروں میں رہی، نہ تعلیمی اداروں میں،احترام زبردستی کروایا جاتا ہے،فرقہ بندی میں قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔دین کمایا نہیں  جا رہا  بلکہ دین سے کمائی کی جا رہی ہے،اور سب سے بڑی بیماری ،آزادی اظہار راۓ۔۔۔ اس کی آڑ میں جس کو مرضی ،دین کو، نبیوں کو، صحابہ کو ،بزرگان دین کو ،اسلامی اقدار کو غرض جس کو جو چاہے تبرا کرے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرے تو اسے انتہا پسند کہہ کر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے

انہی  روشن راہوں کی جھوٹی چکا چوند نے   مسلم معاشروں کو اس تنزلی کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں آگے بھی  اندھیرا ہے پیچھے بھی۔ مادی ترقی سے انکار کسی صورت نہیں  کیا جا سکتا یہ ہمیں ہر حال میں کرنی ہے اور ہر شعبے میں کرنی  ہے لیکن اس کے لیے راستے بھی وہی اختیار کیے جائیں جنہوں نے ترقی یافتہ معاشروں کو معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کی سیاہ ترین پستیوں میں پھینک دیا ہے ،یہ بالکل ضروری نہیں۔۔۔ بلکہ ہم مسلمانوں کے لیے یہ روشن راستے اندھی پستیوں کے سوا کہیں نہیں جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے معاشروں میں اگر ہمیں باہمی محبت .اخلاقی اقدار فرقہ بندی سے پاک دین اور قانون کی عملداری چاہیے تو ہمیں اس جدید تعلیم و ترقی کے ساتھ ساتھ اس سبق کو بھی دوبارہ  یاد کرنا  ہو گا جو آج سے بیس سال پہلے تک ماں باپ تربیت کے نام پر،  اساتذہ تعلیم کے نام پر  اور معاشروں کے بڑے تجربے کی نصیحت  کے نام پر آنے والی نسل کو رٹایا کرتے تھے،اگر 1400 سال پہلے یاد کروائے سبق کر ہم نے یکسر نظر انداز کر دیا  تو ہم نہ  گھر کے رہیں گے اور نہ  گھاٹ کے!

Facebook Comments

Ajaz Bhatti
electronics engineer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply