مستی۔۔۔۔جنید حسن

اس کے کان میں لگے ہینڈز فری سے کسی راک (rock) گانے کی آواز اچھل اچھل کر میرے کان میں گر رہی تھی۔ یہ ‘مفت کی انٹرٹینمنٹ’ جب زیادہ بارِگوش ہوئی تو میں نے اپنے برابر بیٹھے مستقبل کے معمار سے آواز ہلکی کرنے کا کہا۔ اس نے سعادت مندی میں سر ہلایا اور آواز کم کردی۔ اس کی طبیعت میں پوشیدہ طلب و عمل کی رمق کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اس کا قرض ‘مفت نصیحت’ کی صورت ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
“وہ فعل جو آدمی کو مست کردے۔ ایسا مست کہ آدمی اردگرد سے بے خبر ہوجائے سب کچھ فراموش کردے، ایسی بدمستی نشہ ہے اور نشہ حرام ہے۔”

“تو پھر قوالی میں بھی تو مست ہوجاتے ہیں اسے کیوں اچھا سمجھتے ہیں؟” وہ بھی اکیسویں صدی کی پیداوار تھا سرعت سے سوال کر ڈالا، ہینڈزفری اب کان سے اتر کر اس کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ میں مسکرادیا۔
“وہ قوالی جو بد مست کردے یعنی ایسا مست کردے کہ آدمی کو خود فراموشی سے خدا فراموشی تک لے جائے وہ بد مستی نشہ ہے۔ اور نشہ حرام ہے۔ یہ جو “سب کچھ” ہے اس میں سب سے بڑی شے یادِالٰہی ہے۔”

“تو یہ صوفی بھی تو دنیا و مافیہا سے بے خبر نظر آتے ہیں یہ کیونکر ٹھیک ہوسکتے ہیں؟” اگلا سوال آیا۔
“ایسی مستی جو یادِالٰہی سے غافل نہیں بلکہ اس میں مستغرق کردے وہ شرابِ طہور کی طرح ہے۔ یہ مقصود بھی ہے اور اس کے لیے شریعت و طریقت کے تابع ہوکر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ مگر یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ جانے الفاظ کی ثقالت تھی یا موضوع کا بھاری پن، وہ پہلے سوچ میں پڑا پھر اس کی کشادہ پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ جبکہ میں پر امید ہوگیا، کیا پتہ یہ مستقبل کے کسی سروقد، پھلدار اور سایہ دار درخت کے تنے پر ابھرنے والی جھریوں کی پہلی اساس ہوں۔ میں ایک خوشگوار تاثر لیے سامنے دیکھنے لگا۔ منزل ابھی دور تھی لیکن راستے کا  تعین ہوچکا  تھا s۔ گاڑی ہمیں اسی طرح لیے آگے سفر طے کر رہی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply