بے نظیربھٹو کی شہادت، چند یادیں!

مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا- میں بی اے کے ایک طالبعلم کو پڑھا کر اس کے گھر سے رخصت ہونے کو تھا- ابھی کھڑا ہیلمٹ پہن رہا تھا کہ فضا ایک زور دار دھماکہ سے گونجی- چونکہ مقام کشمیرروڈ اور صدر کے بیچ تھا جہاں واپڈا کا مرکزی دفتر، گاڑیوں کی مرمتی دکانیں، سلنڈر بھرائی کی دکانیں واقع ہیں، تو گمان ہوا کہ شائد سلنڈر یا ٹائر پھٹا ہوگا- اسی اثناء میں ایمبولنس کا سائرن سنائی دیا- کچھ ہی لمحوں میں جب آوازیں بڑھیں تو دل ودماغ میں وسوسے ابھرنے لگے- ” اللہ خیرکرے” کا ورد کرتے میں نکلا تو شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا- دسمبرکی شامیں پنڈی و گردنواح میں عموماً سرد ہوتیں ہیں- موٹرسائیکل پرسوار ہوں تو خنکی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے- اندرونی گلیوں سے گزرتا جب میں مریڑحسن چوک پرپہنچا تو لوگوں کو ٹولیوں کی صورت جا بجا کھڑے دیکھا- چوک میڈیکل سٹورز، فروٹ اور خشک میوہ جات کے ٹھیلوں اور یخنی کے سٹال سے جانا جاتا ہے توبھیڑ کو اسی تناظر میں نظرانداز کیا- بہرحال کچھ غیرمعمولی ضرور تھا جس کا اندیشہ کھٹک رہا تھا- انھی سوچوں میں گم میں ابھی گھر کے قریب قبرستان کی گلی میں تھا کہ بردار صغیر نمودار ہوا- موٹرسائیکل روکا تو کچھ پوچھنے سے قبل ہی حواس باختہ انداز میں بولا ” بے نظیربھٹو خودکش حملہ میں شہید ہوگئی ہیں! ٹی وی کی خبرہے-”  سن کرزہن ماؤف ہوگیا- کیا؟ کب؟ اور کیسے؟ کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا- گھرپہنچا، ٹی وی آن کیا تو ایک ہیجان بپا تھا-

مگر اس صبح کیا ہوا؟

27 دسمبر اک اجلا مگر کم سرد دن تھا- دھوپ میں تمازت تھی- اپنے ایک عزیز از جان دوست کی شادی تھی جس کے لیے مجھے راولپنڈی کے معروف راجہ بازار میں واقع ایک اسلامی کتب خانہ سے قرآن پاک بمعہ ترجمہ وتفسیر اور چند دیگر مذہبی کتابیں بطور تحفہ خریدنی تھیں- ابھی لیاقت باغ کے نزدیک ریالٹو چوک پرپہنچا ہی تھا کہ سڑکوں پر ہو کا عالم دیکھائی دیا- پولیس کی بھاری نفری نے رکاؤٹیں لگا کر مری روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر رکھا تھا- وجہ لیاقت باغ میدان میں پیپلز پارٹی کا جلسہ اور بے نظیربھٹو کا خطاب تھا- 2008 کے عام انتخابات کا بگل بج چکا تھا- ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پرتھیں-جہاں چیف جسٹس افتخار چوہدری، وکلا، اور میڈیا نے جنرل مشرف کے ساتھ سینگ آڑاۓ ہوۓ تھے، وہیں آمر کی محترمہ بھٹو کے ساتھ بین الاقوامی قوتوں کی ثالثی میں مفاہمت ہوچکی تھی- اقتداری دیگ کے حصے بخرے طے تھے، الیکشن کا فقط ڈھونگ رچانا تھا- یعنی کچھ نیا نہیں تھا، انتظامات مکمل تھے، رسمی کاروائی کا انتظارتھا!

دہشت گردی کے سبب وطن عزیز دھماکوں کی زد پرتھا-  سانحہ لال مسجد ہو چکا تھا- ‘سب سے پہلے پاکستان’    کا نعرہ زن ملک کو تباہی میں دھکیل چکا تھا- دہشت گردی کا عفریت  بےقابو تھا- کوئی دن نہ جاتا تھا کہ وطن عزیز کا کوئی شہر، قصبہ قریہ خودکش دھماکہ سے نہ لرزا ہو- بارود نہ اڑا ہو، انسانی لاشیں نہ گری ہوں، آئیں و سسکیاں نہ بلند ہوئی ہوں- عبادت گاہ ہو یا درس گاہ، بازار ہو سیاسی بھیٹک، کوئی بھی کہیں بھی محفوظ نہ تھا- اور یہ سب اس بدمست ہاتھی کی اقتداء میں ہورہا تھا جو ہمیشہ پاکستان کو دغا دیتا رہا- ” مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا” مگر ہم ٹھہرے ایسے معصوم کہ ایسے فریب کار سے ڈسنے کے لیے فرمائشی تکرار کرتے رہے-

اگرچہ محترمہ کا مشرف کے ساتھ  سیاسی نبھا ہوچکا تھا مگر خدشات اپنی جگہ قائم تھے- بے یقینی کی فضا تھی- محترمہ مشرف کی حب اقتدار اور سیلانی فطرت کے باعث وطن واپسی میں تذبذب کا شکار تھیں- چونکہ پارٹی و عوام کا دباؤ تھا، واپسی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا- بالاخر معاملات فائنل ہوۓ اور محترمہ بھٹو 18 اکتوبر کو دبئی سے کراچی کے لیے واراد ہوئیں- دشمن گھات میں تھا، پے در پے دھماکوں سے استقبالیہ جلوس میں شامل 150 کارکنوں کی جانیں چلی گئیں-  یہ ایک وارننگ تھی- اک پیغام تھا- بے نظیربھٹو کی زندگی انھی خطرات سے عبارت رہی- دھمکی نما تنبہہ کے باوجود عوامی جلسوں کا سلسلہ جاری رہا، تاوقتکہ 27 دسمبر، لیاقت باغ کا جلسہ آن پہنچا-

خدشات مصنوعی نہ تھے- حقیقی تھے جس کے پیش نظر حفاظتی انتظامات بھی بظاہر ” کڑے” رکھے گۓ- لیاقت باغ کو جانے والے سبھی رستوں کو کئی اطراف سے رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا تھا- خیر، قریب واقع ایک پلازہ کی پارکنگ میں موٹرسائیکل کھڑی کی اور بازار کی جانب پیدل چل دیا- رستے میں سوچ میں مگن تھا کہ آخر اس ساری مشق کا مقصد کیا ہے؟ چونکہ نوے کی جمہوری   سرکس کا میں واقعاتی شاہد تھا تو یہ سوچ کر ہی کوفت ہو رہی تھی کہ اگر دونوں قیادتیں ( بے نظیر بھٹو اور نواز شریف) دوبارہ سے اقتدار کی رسہ کشی میں مشغول ہوگۓ تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے- اور ایسا سوچنا کچھ غلط بھی نہ تھا آخر سیاستدانوں کی غلطیوں کا خمیازہ ہم عوام ہی بھگتتے ہیں- شاید رب کو کچھ اور ہی منظور تھا، فیصلہ لوح پر محفوظ تھا، وقت اور مقام بھی طے تھا- باقی تاریخ ہے!

محترمہ کی ناگہانی شہادت سے ملک کس کرب سے گزرا، کس قدر جانی و مالی نقصان ہوا،  یہ تفصیل کسی اور وقت سہی- مگر یہ کہنا ہرگز مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ ملک ایک بالغ نظر اور قد آور سیاسی شخصیت سے محروم ہوگیا- اس سے بڑا سانحہ اور ستم ظریفی کیا ہوگی کہ قیادت کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ آئی جنھیں زندگی بھر انھوں نے سیاست سے دور رکھا- جس کی وجہ شہرت فقط کرپشن تھی- وہ پارٹی جو آمروں سے نہ ٹوٹی، محض ایک کرپٹ شخص کے ہاتھوں پانچ سالوں میں ایک صوبے تک محدود ہوگئی- پارٹی اب قحط الرجال سے نڈھال ہے- بھٹو اور بی بی کی روحوں پر یہ دیکھ کیا گزرتی ہوگی!

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ لوگوں کا خلا کبھی پر نہیں ہوتا، شاید   یہ الفاظ محترمہ  بھٹو ایسی شخصیات کے لیے کہے جاتے ہیں- حق مغفرت کرے-

Facebook Comments

Zazy Khan
معاشیات و مالیات کا طالبعلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply