آج یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ
۱۔ قدیم انسان حیوان نہیں انسان ہی تھا ہمیشہ سے۔
۲۔ قدیم انسان یا ماضی کا انسان آج کے ترقی یافتہ مہذب انسان سے زیادہ ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ تھا۔
۳۔ قدیم انسان اپنے (انسان) بارے میں آج کے انسان سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
جب کہ آج جدید دور میں ماضی کے انسان کو غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے بڑے اندازے تخمینے لگانے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ ابتداء کا انسان تہذیب و تمدن سے عاری، بے علم، بے عقل، بے لباس اور بے ہنر تھا۔ اس کا معیشت، معاشرت اور سائنس سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ابتدا کا انسان جنگلوں میں جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب کہ بعض تو اس سے آگے بڑھ کر انسان کو حیوان ہی قرار دے دیتے ہیں یعنی ابتداء کا انسان حیوان ہی تھا اور رفتہ رفتہ بتدریج اس کی جسامت میں تبدیلی آئی اور یوں وہ آج انسانی روپ میں ظاہر ہوا بتدریج اس کی عقل اور علم میں اضافہ ہوا اور انسان تہذیب سے آشنا ہوا۔
یہ سب انتہائی غیر سائنسی اور بے بنیاد مفروضے ہیں جن کی آج ہمیں مسلسل سائنسی و غیر سائنسی شہادتیں میسر آ رہی ہیں۔ جب کہ تاریخ اور مذاہب ہمیں یہی بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ انسان ابتداء سے با شعور، با علم اور با لباس ہے۔ آج ہمیں مسلسل سائنسی شہادتیں میسر آ رہی ہیں جن کے مطابق ماضی کے انسان نے آج کے انسان سے زیادہ سائنسی ترقی کی تھی اور ماضی کے انسان جانور نہیں تھے بلکہ آج کے انسان سے زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان تھے۔ وہ آج کے انسان سے زیادہ اپنے (انسان) بارے میں علم رکھتے تھے۔ قدیم انسان نہ صرف اپنی باطنی، روحانی صلاحیتوں میں آج کے انسان سے آگے تھا بلکہ مادی ترقی میں بھی آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔
آج جدید تحقیقات ماضی کے قصوں سے آگے نہیں بڑھیں بلکہ ابھی تک ماضی کے روحانی تجربات کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف کار ہیں۔ مذہبی اور تاریخی قصوں کی شہادت آج کی جدید تحقیقات فراہم کر رہی ہیں۔ نیز آج ہم اس قابل ہیں کہ ان تاریخی تجربات کو تجرباتی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ آج کی جدید تحقیقات ماضی کے روحانی تجربات کے ثبوت تو فراہم کر رہی ہیں لیکن ابھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ماضی کی تاریخوں میں روحانی کمالات کے جتنے قصے رقم ملتے ہیں ایسے روحانی کمالات آج دیکھنے میں نہیں آتے۔ چند نام نہاد جادوگر کیمیا گری کے کچھ کرتب تو دکھاتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کچھ خاص قابلِ توجہ نہیں ہیں۔ آئیے ماضی کے انسان کی مادی و روحانی برتری کے کچھ مشہور ثبوت ملاحظہ کیجیے۔
قدیم انسان کی روحانی برتری
ماضی کا انسان روحانی طور پر آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہذا ماضی کا انسان اپنے روحانی تشخص یعنی باطن سے آج کے انسان سے زیادہ معلومات رکھتا تھا جس کی تصدیق آج کی جدید سائنس بھی کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً آج کے سائنسدانوں نے (۱۹۳۰ء) میں AURA کی تصویر کشی کی اہلیت حاصل کی ہے جب کہ ہزاروں برس قبل بھی AURA کی تصویر کشی کی جاتی تھی۔ قدیم ادوار میں یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا جسے انگریزی میں “HALO” اور قدیم یونانی اور لاطینی زبان میں ” اورا ” AURA اور ایرولا (AUREOLA) کہا جاتا تھا۔ جب کہ آج اسی تاریخی مناسبت سے سائنسدانوں نے انسان کے باطنی رخ یا لطیف جسم کا نام ” AURA ” رکھا ہے۔
جب کہ ڈھائی ہزار برس قبل ایران کے عظیم فاتح (جو سائرس اعظم، کورش اعظم اور ذوالقرنین کے ناموں سے مشہور ہے ) کے باپ کے محل کو منحوس اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے دیواروں پر ارواح کی شکلیں کندہ کروائی جاتی تھیں۔ اور آج سے پانچ ہزار سال پہلے فراعنہ مصر لاشوں کو حنوط کر کے ممی کی شکل دے ڈالتے تھے تاکہ مرنے والے کی روح (بع) اور ہمزاد (کع) اپنے جسم کو شناخت کر لیں۔
یعنی قدیم انسان نہ صرف اپنے باطنی تشخص سے واقف تھے بلکہ اس کی تصویر کشی بھی کرتے تھے۔
ریمنڈی موڈی نے اپنی کتاب ( Life after Life – 1975 ) کا موازنہ ایک تبتی کتاب ( Tibetan Book of Dead ) سے کیا ہے۔ یہ کتاب زمانہ قبل از تاریخ تبت کے دانشوروں کو زبانی پڑھائی جاتی تھی جو سینہ بہ سینہ چل کر آٹھویں صدی عیسوی میں کتابی شکل میں سامنے آئی یہ قدیم کتاب ریمنڈی موڈی کی موجودہ دور کی جدید طبیعاتی تجربات پہ مشتمل کتاب سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے۔ دونوں کتابوں کے تجربات میں مماثلت ہے۔
تبت میں ایسے ماسٹر پائے جاتے تھے جو مراقبہ کے دوران اپنے اوپر مصنوعی موت طاری کر لیتے تھے یعنی طبعی نقطہ نظر سے ان کی موت واقع ہو جاتی نیز ہپناٹزم (جسے وہ کٹن کہتے تھے ) کے ذریعے موکل (جسے وہ ’اورکل‘ کہتے تھے ) سے مستقبل کے حالات معلوم کئے جاتے تھے۔ تبتی لامہ ہوا میں اڑنے ، اپنے AURA کو جسم سے الگ کرنے ، ہزاروں میل دور کی چیزیں دیکھنے ، ماضی و مستقبل میں جھانکنے اور سفر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ تبت میں روحانی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم تھے۔
ابن بطوطہ نے بھی اپنے مشہور سفر نامے میں چند جو گیوں کے روحانی کمالات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ ایک جو گی کی کھڑاویں خود بخود زمین سے اُٹھیں اور فضا میں معلق ہو گئیں۔ بڑے جو گی نے اپنے شاگرد کو اشارہ کیا وہ بھی فضا میں آہستہ آہستہ بلند ہونے لگا اور اتنا بلند ہوا کہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔
ایسے ہی واقعات کا تسلسل اہلِ روحانیت کے ہاں ہمیشہ سے ملتا ہے چاہے وہ مسمان ہوں یا عیسائی، ہندو ہوں یا یہودی تمام کی مذہبی اور تاریخی کتابوں میں ایسے سپر نارمل واقعات کا تسلسل ملتا ہے۔ ایسے خرقِ عادت واقعات کی کوئی سائنسی توجیہہ اگرچہ جدید سائنس پیش نہیں کر سکی مگر آج ان واقعات کی گواہی ضرور دے رہی ہے۔ اور جدید تجربات سے یہ واقعات رفتہ رفتہ ثابت بھی ہو رہے ہیں۔
آجکل بھی ایک انگلش چینل سے ’کرس اینجل‘ نامی شخص ایسے کرتب دکھاتا نظر آتا ہے، کبھی ہوا میں اڑتا ہے کبھی غائب ہو جاتا ہے وہ اسے (Mind Power) قرار دیتا ہے
ماضی کے تمام ادوار میں ان سپر نارمل واقعات کا تسلسل ملتا ہے مثلاً اولیاء کی کرامات یا انبیاء کے معجزے مثلاً عیسیٰ علیہ اسلام اندھے کو بینا اور مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ جب کہ موسیٰ علیہ اسلام کے پاس عصا تھا جو بہت بڑے اژدھے کا روپ دھار لیتا تھا۔ جب کہ حضرت محمد ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو لخت کر دیا تھا۔ اور انہوں نے معراج کا سفر کیا اور ٹائم اور اسپیس کو توڑتے ہوئے خالق کائنات تک جا پہنچے۔ جنت اور جہنم کا مشاہدہ کیا۔
اگرچہ مذہب پرست معجزوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن مادہ پرست انہیں بھی جھٹلاتے ہیں ( یہ فقرہI don’t believe this اب محض لا علمی اور جہالت کا نشان ہے اس لئے کہ کسی بے وقوف کے یقین کرنے نہ کرنے سے حقائق نہیں بدلتے )آج جدید سائنس انتہائی خرقِ عادت معجزوں تک کی شہادت دے رہی ہے۔ مثلاً اپالو مشن کی پروازوں کے درمیان 4 مئی 1967 کے تاریخی دن راکٹ آربیٹر 4کے ذریعے ملنے والی تصویروں میں چاند کی سطح پر دوسوچالیس(240) کلومیٹر طویل اور آٹھ کلومیٹر چوڑی ایک بالکل سیدھی لکیر یا دراڑ کا نمایاں طور پر مشاہدہ کیا گیا۔ قدرتی عوامل کے تحت بننے والی لکیر یا دراڑ کبھی خط مستقیم میں نہیں ہوتی یعنی یہ شہادت ہے اس امر کی کہ آج سے چودہ سو سال پہلے انگلی کے اشارے سے چاند دولخت ہوا تھا(اس معجزے کی تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں ) عیسی علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مُردے زندہ کرتے تھے۔ آج ان کی قوم یہی کام کلون انسان پیدا کر کے کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سائنس ابھی دیگر معجزوں اور کرامات کی بھی گواہی دے گی خود سائنس کی مثال بھی جادو یا کرامت کی سی ہے۔
انبیاء کے معجزوں کے علاوہ اولیاء کی کرامات کا بھی تسلسل تاریخ سے ملتا ہے۔ اولیاء نے بھی مردوں کو زندہ کیا سوکھے درخت کو ہرا کیا۔ سوکھے اور رُکے ہوئے دریا کو چلا دیا اور ایسی بے شمار کرامات دکھائیں جو عام حالات میں ناممکن ہیں۔ غرض روحانی کمالات کے جتنے بھی قصے تاریخ میں رقم ملتے ہیں آج دیکھنے میں نہیں آتے چند نام نہاد جادوگر کیمیا گری کے کچھ کرتب تو دکھاتے نظر آتے ہیں لیکن یہ بچوں کے سے کرتب کچھ خاص قابل توجہ نہیں ہیں۔
ماضی کا انسان محض روحانیت میں آج کے انسان سے بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی آج کے انسان سے بڑھا ہوا تھا۔ آج کے انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی نہیں کی جیسی کہ ماضی کے انسان نے کی تھی۔ ْْْْْقْْْیتک نہیں بن سکتا۔ مثلًا
قدیم انسان کی سائنسی برتری
ماہرین ابھی تک اہرامِ مصر کی عجوبہ عمارتوں کی ٹیکنیک میں الجھے ہوئے تھے کہ زیرِ سمندر ہزاروں برس پہلے کے شہر دریافت ہونے لگے۔ ایسے شہر جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ دور سے زیادہ ترقی کی ہوئی تھی۔ ان زیر سمندر شہروں میں گرینائٹ پتھر سے تعمیر شدہ بلند و بالا عمارتیں، ڈامر (Asphalt) سے بنی ہوئی طویل سڑکیں، جہازوں کے طویل رن وے، اہرام، مندر، رومی و مصر کی طرز کے ستون، سیڑھیاں، اور گودام دریافت ہو رہے ہیں۔
مصر میں فیئجم (Fagium) کے مقام پر ایسی پینٹنگز ملی ہیں جن کے رنگ ہزاروں برس گزر جانے کے بعد آج بھی ہلکے نہیں پڑے جب کہ ایسے رنگ جدید دور میں ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے۔
ولیم کونگ نے نظریہ پیش کیا کہ 2500 قبل مسیح میں عراق میں طلائی الیکٹرو پلیٹنگ کے ثبوت ملتے ہیں، امریکی ریاست کیلی فورنیا میں کوسو ( Coso ) پہاڑی سلسلہ کے قریب لاکھوں سال پرانا اسپارک پلگ (۱۳ فروری ۱۹۶۱ کو) ملا ہے۔ جرمن ریسرچر ڈاکٹر کولن فنک کے مطابق 4300 برس قبل مصر کے لوگ بجلی کا استعمال جانتے تھے۔ 1938 میں بغداد کے قریب ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کے کھنڈرات سے ایک الیکٹرک بیٹری دریافت ہوئی۔
ہندوستان میں 1800 قبل مسیح میں لکھی گئی ایک قدیم کتاب آگستا سمہتا (Agasta Samhita) میں الیکٹرک بیٹری کی تیاری کی تمام تفصیل موجود ہے۔ بائبل کتاب پیدائش باب 6 آیت 16 میں تحریر ہے۔ تم (نوح علیہ السلام) اپنی کشتی کے لئے ایک صہر (Tsohar) بناؤ اور اوپر سے ایک ہاتھ تک اسے مکمل کرو صہر کا ترجمہ ایک ایسی روشنی ہے جو سورج کی طرح روشن ہو۔ اسی طرح یہودیوں کی مقدس کتاب (ملکہ سباح اور اس کا اکلوتا بیٹا مینلیک میں بھی سلیمان کے گھر میں الیکٹرک بلب کا ذکر موجود ہے۔ اس کتاب کو کبیرا ناگست (Kebra Nagast) بھی کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے 1.5 Million سال پرانا پتھر کا گھر دریافت کیا ہے۔ جب کہ ترکانا (Turkana Body) لڑکے کا فوسل سولہ لاکھ سال پرانا ہے۔
چین میں ایک ایسی پر گوشت لاش ملی ہے جیسے کچھ دیر قبل دفنائی گئی ہو لیکن یہ دو ہزار برس قبل کی ہے۔ مصریوں کی لاشیں بھی آج تک محفوظ ہیں۔ اور باوجود کوشش کے جدید سائنسدان مادی جسم کو محفوظ کرنے کا ایسا مسالہ تیار نہیں کر سکے جیسا ماضی کے انسانوں نے تیار کر کے اپنی لاشوں کو محفوظ کیا تھا۔ ان اصل اور جدید فوسلز کی دریافت سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسان لاکھوں سال پہلے نہ صرف انسان تھا بلکہ جدید ترقی یافتہ انسان تھا۔
رومی عہد کے شہر ٹائبرس (Tiberus) کے مقام پر ایسے شیشے دریافت ہوئے ہیں جو توڑے نہیں جا سکتے جیسا کہ آج بلٹ پروف شیشے استعمال کئے جاتے ہیں۔
ساؤتھ امریکن جنگل میں کولمبین تہذیب پر ریسرچ کرنے والے کولونل پی ایچ فاسٹ کے مطابق امریکن مائن انجینئرز کی ایک ٹیم کو سیروڈل پاسکو(Serodel Pasco) کے قریب ایک قدیم مقبرے میں جانچ کے دوران ایک سیل پیک بوتل ملی یہ حادثاتی طور پر گر کر ٹوٹ گئی اس بوتل میں موجود لیکوئڈ کے چند قطرے ایک پتھر پر گرے وہ پتھر لمحہ بھر میں نرم مٹی میں تبدیل ہو گیا لیکن کچھ دیر میں وہ دوبارہ عام پتھر کی طرح سخت ہو گیا۔ جب کہ آج کے سائنسدان ایسے کسی کیمیکل کی ایجاد نہیں کر سکے۔
صحرائے گوپی سے 1950 ء میں 20 لاکھ سال پرانا ایسا پتھر ملا ہے جس پہ کسی جوتے کے فٹ پرنٹ ہیں۔ لاکھوں برس قدیم اقوام (جنہیں ماہرین ہتھیار استعمال کرنے والے دو ٹانگوں والے حیوان قرار دیتے ہیں ) کے پاس ایسا کونسا فارمولا تھا جس سے وہ پتھر کو موم کر لیتے تھے۔ جب کہ ایک مغربی فزیالوجسٹ کو سات سے نو کروڑ برس قدیم ایک پتھر ملا ہے جس کے اندر سے اسٹین لیس اسٹیل کی گیارہ کیلیں Nails برآمد ہوئی ہیں۔ پیرو (امریکہ) کے شہر اکا (Ica) سے ملنے والے ہزاروں برس قدیم منقش پتھروں میں ایک گول گیند نما پتھر ایسا ملا ہے جس پر پوری دنیا کا نقشہ گلوب کی صورت میں ابھرا ہوا ہے اس میں موجود تہذیبوں کے علاوہ ماضی کی گمشدہ تہذیبیں بھی دکھائی گئی ہیں۔ مایا (Mayan) تہذیب سے دریافت ہونے والی ڈھائی ہزار برس قدیم تختیوں میں ایسی تصاویر ملتی ہیں جیسے کوئی شخص راکٹ یا ہوائی جہاز اڑا رہا ہو۔ مصر میں عبیدوس کے مقام پر سیتی اول ” Seti-1 ” کا پانچ ہزار برس قدیم معبد موجود ہے جسے نومبر1988 میں دریافت کیا گیا اس معبد کے شہتیر پر نہ صرف ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز بلکہ جیٹ طیارے، گلائیڈر اور اسپیس شپس کی بھی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جب کہ بعض لوگ ان تصویروں کو جھٹلاتے ہیں جب کہ ان آثار کے ثبوت ہمیں تاریخی اور مذہبی کتابوں سے بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ہندوؤں کی قدیم کتابوں (مہابھارت، رامائن اور پرانوں ) میں لفظ ومان (Vimana) یعنی اُڑنے والی رتھ کہا گیا جب کہ بائبل کی کتاب حزقیل میں انہیں کروبی “Cherub” اور تبت کی قدیم کتابوں میں کنٹویا اور ٹنٹویا (Kentyua-, Tantyua) میں اڑنے والی مشینیں کہا گیا جنہیں تبت کے لوگ پرلز (pearls) کہتے تھے اور یونان کی دیومالائی داستانوں میں بھی اڑنے والی سواریوں کا ذکر موجود ہے۔ جب کہ تاریخ طبری میں طوفان نوح کے عہد کے دو بادشاہوں کے ہوائی سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔ قدیم بابل کی آشوری تہذیب کے کتبوں میں ایک طاقتور بادشاہ اتانا(Etana) ایک پرندے پر سفر کرتا ہے جو جہاز سے مشابہ ہے۔ ایسے ہی جہازی سفر کا ذکر قرآن نے سلیمان علیہ اسلام کے حوالے سے کیا ہے۔ نینوا سے برآمد ہونے والی ماضی کی قدیم ترین رزمیہ داستان گلگامشن (Gilgamish) کی ساتویں تختی میں گلگامش کا دوست انیکدو اُسے اپنے خلائی سفر کا چشم دید واقعہ سناتا ہے۔
قدیم یونانی فلسفیوں نے کہا تھا کہ ایتھر ایٹم کی روح ایٹم کا لطیف ترین وجود ہے۔ یونانیوں نے اس تعریف میں ایٹم کے حوالے سے دو انکشاف کئے ہیں۔
(۱)۔ ایٹم کا لطیف وجود
(۲)۔ ایٹم کے اندر مزید وجود
ہزاروں برس بعد ج ایٹم کے اندر مزید وجود (نیوکلیس، نیوٹران، پروٹون، الیکٹران، لپٹان اور کوراک) دریافت کر لئے گئے جب کہ ان دریافتوں سے پہلے تک سائنسدان ایٹم کو ہی ناقابل تقسیم ذرہ سمجھتے تھے۔
جب کہ یونانیوں نے مزید وجودوں کے علاوہ ایٹم کی روح یا لطیف جسم کا بھی تذکرہ کیا تھا۔
فوٹان کی دریافت یا (Wave Pocket) کی دریافت سے یہ ثابت ہو گیا کہ ایٹم میں لطیف توانائی بھی موجود ہے۔
قدیم معبدوں سے ملنے والی تصویروں میں DNA کی تصویر بھی شامل ہے یعنی وہ DNA سے بھی متعارف تھے۔
ماضی کے انسانوں نے جنیٹک میں بھی ایسی ترقی کی تھی کہ انہوں نے انسانوں اور جانوروں کے جینز سے ایسی مخلوق تیار کر لی تھی جو انسان اور حیوان کے درمیانی مخلوق تھی جس کی تصویریں ہمیں مقبروں میں نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ مخلوق ایسی وحشی تھی کہ اسی قوم کی تباہی کا سبب بن گئی اور خود ہی آپس میں لڑ کر تباہ ہو گئی۔ ان مخلوقات کا نوعی تسلسل قائم نہیں ہو سکتا تھا یہ مٹ گئیں۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ قدیم اقوام نے کشش ثقل (Gravity) پہ بھی کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جب کہ آج کے دور میں یہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔
(ایک پاکستانی (شیخ سراج الدین )کشش ثقل پر کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے ، اُس کے خیال میں وہ سائیکل گاڑی سے لے کر ٹربائن تک اس قوت سے چلا سکتا ہے لیکن یہاں اس کی کوئی سنتا ہی نہیں )۔
نینڈرتھل (Neanderthalensis) ڈھانچوں کی باقیات اور جدید انسان کے باہمی موازنے سے ثابت ہو چکا ہے کہ نینڈتھل کی کھوپڑی میں زیادہ بڑا دماغ سمانے کی گنجائش تھی جب کہ وہ جسمانی اعتبار سے بھی موجودہ انسان کے مقابلے میں مضبوط اور توانا(مکمل انسان )تھے۔
کَانُواَشَدَّ منکُحہ قُوَۃًّ۔ ترجمہ:۔ وہ تم سے زیادہ قوت والے تھے (سورہ توبہ ۶۹) یعنی قدیم انسان ذہنی و جسمانی لحاظ سے بھی آج کے انسان سے مضبوط تھے۔ ماضی کا انسان آج کے انسان سے زیادہ طویل العمر تھا۔ قدیم انسان ہزاروں برس کی عمر رکھتے تھے یا تو یہ قدرتی عمل تھا یا پھر ہو سکتا ہے انہوں نے طویل عمری کا راز دریافت کر لیا ہو جیسا کہ آج سائنسدان طویل عمری کا راز دریافت کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک امریکی ماہر روحانیت ایڈگر کیسی کے مطابق معدوم شہر اٹلانٹس کے لوگ جدید دور سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اہرام مصر، ا سٹون ہینج، ایسٹر آئی لینڈ کے مجسمے وغیرہ انہی کی تعمیرات تھے۔ یہ لوگ ٹیلی پیتھی میں بھی مہارت رکھتے تھے ان کے پاس توانائی کا منبع ایک کرسٹل نما پتھر تھا جسے Tuaoi کہتے تھے یہ انعکاسی پتھر سورج کی روشنیوں کو جذب کر کے دوبارہ منعکس کرنے پر قادر تھا ( جب ایڈگر کیسی اٹلانٹس کی سولر انرجی کا ذکر کر رہا تھا تو اس وقت سولر انرجی کے استعمال کی ابتداء نہیں ہوئی تھی)۔ اٹلانٹس کی غرقابی اسی کرسٹل نما انعکاسی پتھر کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوئی کرسٹل کی مدد سے لامحدود توانائی حاصل کرنے کی کوشش میں کرسٹل کی توانائی کا شدت سے اخراج ہوا اور یہ براعظم تباہ ہو گیا۔ یہ ہوائی جہاز کی ایجاد بھی کر چکے تھے جسے وہ Vilixi کہتے تھے۔
جب کہ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایسی بادشاہت کا ذکر ہے جو کسی دور میں کسی کو نہیں ملی سلیمان علیہ السلام کے قصے میں ان کی قوم ہر جدید ایجاد سے لیس نظر آ رہی ہے جن میں سر بہ فلک عمارتیں ہوائی جہاز، سینما، ٹیلی ویژن اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے والی رسد گاہیں اور دوربینیں ، بینک، آبدوز، کشتیاں راکٹ، بجلی کا استعمال، برقی تار، ٹیلی فون وائرلس وغیرہ ہر جدید ایجاد کی تفصیل اس قصے میں موجود ہے۔ قدیم انسانوں کے بارے میں حیرت انگیز دریافتیں جاری ہیں اور ان دریافتوں سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ماضی کا یا قدیم انسان ترقی یافتہ انسان تھا لیکن اب سوال یہ ہے کہ قدیم انسانوں نے آخر کتنی ترقی کی تھی؟
ماضی کی اقوام سے ایک مشہور روایت منسوب ہے کہ ایک قوم نے علم میں اتنی ترقی کی تھی کہ مزید گنجائش ہی نہیں رہی تھی لہذا خالق نے اس قوم کی طرف اپنے فرشتے ( جبریل) کو بھیجا اس( جبریل علیہ اسلام) نے سڑک پر کھیلتے ایک بچے سے سوال کیا کہ بتاؤ جبریل اس وقت کہاں ہے لڑکے نے زمین پر کچھ لکیریں کھینچیں اور بولا۔ جبریل اس وقت آسمان پر ہے نہ زمین پر وہ تم ہو یا میں اور میں تو ہو نہیں سکتا لہذا جبریل اس وقت میرے سامنے ہے۔
مندرجہ ذیل تفصیل سے اندازہ لگائیں کہ وہ کونسا شعبہ ہے جس میں قدیم انسان پیچھے ہے جب کہ وہ ہر میدان میں آگے ہی نظر آ رہا ہے۔ جب کہ ماہرین کا (برسوں کی تحقیقات کے بعد) خیال ہے کہ لاکھوں برس پہلے زمین پر دو ٹانگوں والے حیوان بستے تھے (اور یہی ابتدائی انسان تھے جو رفتہ رفتہ انسانی صورت اختیار کر کے مہذب اور تعلیم یافتہ ہو گئے )جو ایک دوسرے کا خون بہانے والے بے شعور انسان تھے پہلے تو وہ انہیں ہی انسانوں کی ابتدائی صورت کہتے رہے لیکن جدید تحقیقات نے ان کی ان خرافات کی نفی کر دی تو پھر انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اندازہ لگایا کہ موجودہ انسان 50,000 سال پہلے وجود میں آیا اور کوئی 40,000 سال پہلے دجلہ و فرات کے کنارے اچانک وہ تہذیب یافتہ ہو گیا۔
جب کہ جدید تحقیقات اور نت نئی دریافتوں سے میسر آنے والے مسلسل شواہد کے نتیجے میں ہمیں ہزاروں برس قبل کا نہیں بلکہ لاکھوں برس قبل کا انسان بھی آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ نظر آ رہا ہے۔ آج کے انسان نے مادی ترقی تو کی ہے لیکن اپنی ہی روح پہ مادیت کی صدیوں کی تہہ چڑھا دی ہے اور آج صدیوں کا انسان خود کو شناخت کرنے سے انکاری ہے۔ کچھ ماہرین روحانیت کا خیال ہے کہ ترقی محض آج کے دور کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ ہر دور میں ہر قوم تقریباً دس ہزار برس میں ترقی کی اوج پر پہنچ جاتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے آثار تو ایسی ہی خبروں کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ ہر قسم کی سائنسی، مذہبی اور تاریخی شہادتوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہر دور کا انسان نہ صرف انسان تھا بلکہ روحانی و مادی ترقی میں بھی آج کے انسان سے بڑھا ہوا تھا۔ جب کہ آج کچھ نام نہاد ماہرین ان تمام تر حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کئے اپنے کچھ ذاتی تعصبات کی بنیاد پر انسان کو حیوان ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کے غیر سائنسی مفروضوں اور بے بنیاد دعووں کی کلی اگرچہ کھل چکی ہے اور انہی کی بے کار کی جد جہد سے کارآمد ثبوت مل رہے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ اُٹھ رہا ہے کہ ابتداء کا انسان کیسا با کمال با شعور اور ترقی میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ آج کا انسان اس کمال کو نہیں پہنچ سکا۔ جو ماہرین ابتدا کے انسان کو غیر مہذب حیوان قرار دیتے ہیں ان کے ان غیر سائنسی مفروضوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جب کہ انسان کے عظیم الشان ماضی کی گواہی تاریخ، مذاہب اور خود سائنس فراہم کر رہی ہے۔ بہر حال ان ٹھوس شواہد کی روشنی میں یہاں ہم نے قدیم انسان کے بارے میں سائنسی، تاریخی اور مذہبی شہادتیں پیش کی ہیں لہذا اس تمام بحث سے درج ذیل نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
۱۔ ماضی کا انسان جانور نہیں تھا بلکہ( آج کے انسان سے زیادہ تہذیب یافتہ )انسان تھا۔
۲۔ ماضی کا انسان آج کے انسان سے زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان تھا۔
۳۔ ماضی کا انسان موجودہ دور کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔
۴۔ وہ محض مادی ترقی ہی نہیں بلکہ روحانیت میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہو تھا۔
۵۔ ماضی کا انسان اپنے (انسان) بارے میں آج کے انسان سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
۶۔ قدیم انسان موجودہ انسان سے زیادہ طویل العمر تھا۔
۷۔ ۔ قدیم انسان اپنے باطنی تشخص کا علم آج کے انسان سے زیادہ رکھتا تھا
۸۔ ۔ جدید تحقیقات اور روحانی مشقوں میں وہ آج کے انسان سے آگے بڑھا ہوا تھا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں