ذوالقرنین کون؟۔۔۔۔۔سالم رحیم/قسط2

یہ بھی پڑھیں :ذوالقرنین کون؟۔۔۔۔سالم رحیم/قسط1

2: مشرکین نے حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کیے تھے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، یہاں سے اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس شخص کا نام ذوالقرنین تھا۔ ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں؛ دو سینگوں والا۔ یہ کسی نامعلوم وجہ سے ایک بادشاہ کا لقب تھا۔ قرآن کریم نے اس بادشاہ کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں تھا۔ البتہ ہمارے زمانے کے بیشتر محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ سائرس تھا، جس نے بنی اسرائیل کو بابل کی جلاوطنی سے نجات دلا کر انہیں دوبارہ فلسطین میں آباد کیا تھا۔ قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہوں نے تین لمبے سفر کیے تھے؛ پہلا دنیا کی انتہائی مغربی آبادی تک، دوسرا انتہائی مشرقی آبادی تک، اور تیسرا انتہائی شمالی علاقے تک، جہاں انہوں نے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ حملوں سے لوگوں کو بچانے کے لیے ایک دیوار تعمیر کی تھی۔

3: یاد رہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورہ کے یہ تینوں اہم قصے دراصل کفارِ مکہ نے اہلِ کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے۔ سورۃ الْكَہف حاشیہ نمبر 62 یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس ( خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرینِ قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں:

(الف)۔ اس کا لقب ذوالقرنین ( لغوی معنی دو سینگوں والا ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفارِ مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ، ضرور معروف ہونا چاہیے ۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ دو سینگوں والے کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔
(ب)۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرماں روا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسرا جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزولِ قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔
(ج)۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کون سی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کون سی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔
(د)۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرماں روا ہو ، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔

ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے، کیونکہ بائبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن، سورہ بنی اسرائیل، حاشیہ 8)

دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے، مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلاشبہ یہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز ) تک وسیع تھی۔

تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی ، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔

آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزولِ قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ذوالقرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذوالقرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے، جتنا خورس ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply