مولانا طارق جمیل صاحب کی حکومتی جماعت کی تائید بابت مختلف آراء سامنے آئی ہیں، اگرچہ دونوں اطراف (حامی و مخالفین ) کے سنجیدہ طبقات اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے اس معاملے کو غیر معمولی واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر بحیثیت مجموعی یہ واقعہ کسی قسم کی اہمیت کا حامل نہیں ،اس معاملے کی گہرائی کو دیکھنے، سمجھنے اور اس کے اثرات (اگر کوئی ہیں) کو پرکھنے کیلئے نہی عن المنکر کے فلسفے کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔
قرآن مجید میں کم از کم نو مقامات پر امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا ذکر ایسے آیا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں، یہ دو اصطلاحات ایک دوسرے میں، بمعنی، ایسے جذب ہیں، گویا کہ یہ ایک ہی اصطلاح ہے، یعنی کہ اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اس کے علاوہ ایک مقام پر صرف نہی عن المنکر کی ترغیب دی گئی ہے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں متعدد دفعہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ترغیب تو دی ہی گئی ہے، مگر جس شدت کے ساتھ نہی عن المنکر پر زور ہے، امر با المعروف کی بابت ایسی مثال نہیں ملتی،
احادیث میں نہی عن المنکر کی بنیاد پر ایمان کو تقویت کے لحاظ سے تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی کہ برائی یا ظلم دیکھ کر، ہاتھ سے روکنا، اس کی استطاعت نہ ہوتو زبان سے روکنا، اگر اس پہ بھی قادر نہ ہوتو کم ازکم دل سے برا جاننا، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے، اس کے بعد تو گویا ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں (مفہوم )۔
اسی طرح ایک حدیث قدسی کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں اللہ تعالی گناہ گاروں کی ایک بستی کو الٹنے کا حکم دیتے ہیں، جس پر جبرائیل عرض کرتے ہیں کہ اس بستی میں تو ایسے نیک و پرہیزگار بھی موجود ہیں، جنہوں نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی غفلت نہیں برتی، جواباً اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے انہی پر بستی کو اُلٹو کہ ان ” نیکوں ” کو کبھی میرے نام پر غیرت نہ آئی (مفہوم )،یعنی کہ اپنی طرف سے عبادات میں غرق ہیں مگر ظلم پر آنکھ و دل بند کئے بیٹھے ہیں۔
یہ حوالہ جات دینے کا مقصد نہی عن المنکر کی اہمیت قارئین پہ واضح کرنا ہے، کسی بھی نظام میں مثبت تبدیلی کیلئے شرطِ اول نہی عن المنکر ہے، اس کے بغیر نظام میں تبدیلی ممکن نہیں، امر بالمعروف یقیناً ضروری عمل ہے، اور اس کی مدد سے لوگوں کی زندگیاں بدلتی دیکھی ہیں، مگر یہ تمام تبدیلیاں انفرادی سطح تک ہیں، اجتماعی تبدیلی نہی عن المنکر کے بغیر ممکن نہیں، یہ بات غور طلب ہے کہ تمام انبیاء نے اپنی جدوجہد کے دوران جو مشکلات و تکلیفات جھیلیں، اس کی بنیادی وجہ نہی عن المنکر کی دعوت و تبلیغ تھی، امر بالمعروف ایک میٹھا اور دل کو بھانے والا رویہ ہے، سامعین آپ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے آپ کی بات سنتے ہیں، عزت دیتے ہیں، مگر اِنہی سامعین کو نہی عن المنکر کی تعلیم دے کر دیکھئے، گاہے عزت بچا کے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مولانا طارق جمیل کے عمران خان کا ساتھ دینے کے اعلان پر شور شرابا مچانے والے لوگوں (دونوں اطراف سے) نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہ فرمائی کہ کسی بھی موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے، اس نظام میں پہلے سے موجود طاقتوں کا، دو مختلف زاویوں سے مقابلہ کرنا اور انہیں شکست دینا ضروری ہے، ورنہ ناکامی آپ کا مقدر رہے گی، یہ دو زاویے کون سے ہیں؟
یہ دو زاویے دراصل دو طاقتور گروہ ہیں جو معاشرے کے نظام کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں، پہلا گروہ کسی بھی معاشرے کا intelligencia ہے، یعنی کہ وہ باشعور و دانشور افراد جو کسی بھی معاشرے کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور معاشرے کی باگ ڈور انہی کے عبقری فہم کے زیرِ اثر پھلتی پھولتی ہے، یہ طبقہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اگر بد دیانتی پر اُتر آئے تو اس کی سزا مذکورہ معاشرے کی آنے والی کئی نسلیں کو بھگتنا پڑتی ہیں۔
دوسرا گروہ وہ بدمعاش طبقہ ہے جو اس معاشرے کے وسائل پر قابض ہے، ایسے افراد نے معاشرے کو معاشی طور پر دبوچ رکھا ہوتا ہے، اور یہ قبضہ گروپ سیاسی، گاہے مذہبی رنگ میں عوام کو ظلم کی چکی میں نہ صرف پِیستے رہتے ہیں، بلکہ یہ چکی اپنی اگلی نسل کو بھی منتقل کرتے رہتے ہیں، زرداریوں اور شریفوں کی شکل میں ہم اس طبقے سے خوب واقف ہیں۔
نظام میں تبدیلی کیلئے ان دو طبقات سے مقابلہ کئے بغیر، اصلاح کا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں، اور اس مقابلے کیلئے نہی عن المنکر کی دو دھاری تلوار ہتھیارِ واحد ہے جس کی مدد سے فتح کی امید پائی جا سکتی ہے۔
تحریکِ انصاف نے نہ صرف معاشرے میں تبدیلی لانے کے وعدے کئے ہیں، بلکہ ریاستِ مدینہ کا تصور پیش کرتے ہوئے کار واقعی کارکردگی کو اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، دوسری صورت میں سیاسی موت ہی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔
ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل صاحب، تحریکِ انصاف کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، تحریک کے لوگوں نے اسے اپنی کامیابی کا پیش خیمہ جانا کہ بس تبدیلی آئی چاہتی ہے، جبکہ مخالفین نے اس طور سے شور اٹھایا کہ اپنے ” ہم نوالہ و ہم پیالہ ” کی کردار کشی سے بھی گریز نہ کیا، حالانکہ یہ دونوں گروہ یہ سادہ سی بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ تبدیلی کیلئے جن دو محاذوں پر اعلانِ جنگ کی جو شرطِ اول ہے، مولانا صاحب طبعاً اور فکراً اس سے محروم ہیں، یہاں قطعاً مولانا صاحب پہ تنقید مقصود نہیں، مگر فطری طور پر مولانا صاحب نہی عن المنکر جیسے کڑوے گھونٹ کو پسند نہیں کرتے، اسی طرح یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ شعوری طور پر وہ اس وسعت کے حامل نہیں کہ معاشرے کی intelligence کو متاثر کرتے ہوئے، چہ جائیکہ ان سے مقابلے کرتے ہوئے معاشرے کے موجودہ معیارات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
جو لوگ یا جماعتیں ان کے اس عمل پہ سیخ پا ہیں، دراصل وہ اپنے اندرونی خوف میں مبتلا ہیں، جو کہ ان کی کمزوریوں کا عکاس ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کے کرتا دھرتا بھی یہ بات پلّے باندھ رکھیں تو ان ہی کیلئے سود مند ہے کہ مولانا کا ساتھ ان کیلئے کچھ زیادہ آسانیاں پیدا نہ کر پائے گا۔
کسی بھی سنجیدہ و شعوری بالغ معاشرے میں اس واقعے پر، مٹی پاؤ، والا رویہ اپنایا جاتا،مگر ہمیں زیبِ داستاں کیلئے کئی بہانے درکار ہوتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں