انتہا پسندی،ردِ عمل کی نفسیات۔قسط 13

آئیے ڈاکٹر اختر احسن کے بیان کردہ چوتھے اسلوب Mechanism کے ذریعے استعمار اور محکوموں کے درمیان بننے والے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر اختر احسن نے یہ اسلوب بچے اور والدین کے تعلق حوالے سے بیان کیے ہیں۔

یہ چوتھا اسلوب Loss یا نقصان کو بیان کرتا ہے۔ استعمار کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کی فہرست اور تفصیلات بہت طولانی ہیں۔ ہمارے ملک میں جاری دہشت گردی استعمار کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلق کی پیداوار ہے۔ ھم نے اس پیچیدہ تعلق کے تقاضوں کو نبھاتے ھوے، ایک استعمار کو دوسرے استعمار کے ذریعے شکست دینے کی خاطر دہشت گردی جیسی وبا اپنے سر لے لی۔ اس ”نقصان”   کو معمولی نہ سمجھیں۔۔۔ دہشت گردی صرف بے گناہ انسانوں کو قتل کر دینے کا نام نہیں ہے۔ اس کام کے لئے احساس گناہ Guilt کے بغیر معصوم انسانوں کو قتل کرنے والے ذہن بنانا پڑتے ہیں۔ اپنے نظریات میں ترمیم و اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ کچھ تاریخی حقائق چھپانا پڑتے ہیں کچھ کو اچھالنا پڑتا ہے۔ ہیروز بدلنے پڑتے ہیں۔ سماج کی بنت، ثقافتی اقدار اور انسانی تعلقات کے بنیادی پیمانے تہ و بالا کرنے پڑتے ہیں۔۔۔ بھائی کو بھائی سے لڑانا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ مردہ اختلافات میں نئی روح پھونکنی پڑتی ہے۔ ان کو حقیقی ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر ان اختلافات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانا پڑتا ہے۔ اپنے سے مختلف افرد کو حق حیات سے محرومی کا پروانہ سنانا پڑتا ہے۔ زندہ مسائل کو انسانی فکر اور عمل سے اوجھل رکھنا پڑتا ہے۔ اور ان زندہ مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انگیخت اور ھیجان کے بارے میں یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ ایسا معاشرے میں موجود چند نابکار اور بد کردار افراد اور گروہوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہو رہا ہے۔ خود سے مختلف مذہبی نظریات کو متوازی مذہب قرار دینا پڑتا ہے۔ غلبے کی خواہش کو ابھارنا پڑتا ہے۔ اقامت دین کے کام میں تشدد کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نئی تعریف کرنا پڑتی ہے۔۔۔ تب جا کر معاشرے میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت اور ہمدردی کا چلن عام ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے معاشرے اپنی انسانی اساس کھو بیٹھتے ہیں۔ جب یہ چلن عام ہو جائے اور دہشت گردی معاشرے کے رگ و ریشے میں سرایت کر جائے تو اسے روکنے اور ختم کرنے کے لئے عسکری ضرب اور مکالمے سے بہت زیادہ درکار ہوتا ہے۔

پاکستان نے استعمار کے ساتھ اپنے تعلق میں عاقبت نااندیشی کے انتہائی لمحوں میں استعمار کی اس لڑائی میں کودنے کا فیصلہ کیا۔ عوام سے جھوٹ بولا گیا۔ ان کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے ۔ اور تو اور مذہبی اور فقہی احکامات تک تبدیل کر دیے گئے۔ جہادی نصاب امریکی یونیورسٹیوں میں لکھے گۓ ۔ تعلیمی نصاب تغیر و تبدّل کے عمل سے گزارا گیا۔ نتیجتاً ہم آج اس مقام پر کھڑے ہیں۔ استعمار کے ساتھ تعلق میں ہونے والے نقصانات کے چند اور پہلووں کو بھی دیکھئے

استعمار کے بارے میں بارہا یہ بات عرض کی جا چکی کہ اس کی نظر میں محکومین کی جان مال عزت اور صلاحیت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ سواے اس کے کہ وہ اس سے فائدہ کیسے اٹھاتا ہے۔ محکوم قوموں کے سپاہی استعمار کی شروع کی ہوئی جنگوں میں اپنی جانیں گنوا کر کیسے اس کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ محکوموں کے وسائل پر تصرف کیسے کیا جا سکتا ہے۔ تارکین وطن سے وطن کیسے چھڑوانا ہے۔۔ پھر ان کی بے توقیری کیسے کرنی ہے۔ اور محکوموں کو کم علم کیسے رکھنا اور کیسے ثابت کرنا ہے۔۔ ان سب کی تفصیلات ما بعد نوآبادیاتی نظام پر لکھنے والے مصنفین نے بیان کر دی ہیں۔

اس استعماری نظام کا جو نقصان محکومین اٹھاتے ہیں وہ اقتصادی اور عسکری تو بہرحال ہوتا ہی ہے مگر اس سے زیادہ نفسیاتی ہوتا ہے۔ محکومین نہ جانتے بوجھتے وہی سلوک اپنے ساتھ شروع کر دیتے ہیں۔ استعمار اگر محکومین کی زندگیوں کی توقیر پر آمادہ نہیں ہے تو خود محکومین کی نظر میں اپنی جانوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ خود کش حملے تو ایک طرف رہے آپ اگر انسانی جان کی بے توقیری دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی سڑک پر جا کر دیکھئے۔ سب کو معلوم ہے کہ ٹریفک کے قوانین ہم سب کی حفاظت کے لئے ہوتے ہیں۔ ہر سڑک پر آپ کو اپنی اور دوسروں کی جان سے کھیلنے والے افراد مل جائیں گے۔ کراچی میں دو سو پچاس افراد بھتہ نہ ملنے پر زندہ جلا دیے گئے۔ ستّر ہزار افراد کے قتل کے بعد ہاتھوں کو جنبش ہوئی۔

ما بعد نو آبادیاتی نظام پر کام کرنے والے مفکرین نے سچ کہا ۔۔۔ ایڈورڈ سعید مرحوم نے حقیقت بیان کی کہ محکومین کے عقائد، نظریات، اور علمی اثاثے، سب پر طعنہ زنی ہوتی ہے۔ ان کی حیثیت کو کم کیا جاتا ہے۔ محکومین کی مذہبی رسومات کا ٹھٹہ اڑایا جاتا ہے۔۔۔۔ بالکل درست۔۔۔۔ مگر محکومین نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا۔ آپ صرف سوشل میڈیا پر بھیجی جانے والی مختلف فرقوں کی مذہبی رسومات کی تصاویر اور ویڈیوز اور ان پر ہونے والے تبصروں کو پڑھیے ۔۔ آپ میری بات کی تائید فرمائیں گے۔ کفر اور شرک کے فتوے تو اب سکول کا بچہ بھی جاری فرماتا ہے۔ معاملہ یہاں پہنچ چکا کہ اب ہر گروہ کے اپنی ایک مختلف تاریخ ہے۔ یہ سب آنکھوں دیکھا معاملہ ہے میں چودہ سو سال پرانی تاریخ کی بات نہیں کر رہا۔ 1980 کی دہائی سے جو کچھ افغانستان میں ہونا شروع ہوا صرف اس کی تاریخ دیکھئے۔ آپ کو اس قضیے کے ہر پہلو پر پہاڑ جیسے اختلافات ملیں گے۔ روس افغانستان میں کیوں کس لئے اور کس کے بلانے پر آیا۔ امریکہ کے نیشنل سیکورٹی کے ادارے کے عزائم کیا تھے۔ پاکستان اس مناقشے میں کس وقت، کس کی تحریک پر، اور کن مقاصد کے تحت شامل ہوا۔ ان سب پر اختلاف ہے۔ ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے اس دور میں واقعات کو جس طرح موڑا توڑا گیا ہے وہ سامنے کی بات ہے۔۔۔ ہر گروہ نے تاریخ کے ایک خاص بیان سے وابستگی اختیار کر کے اسے عقیدے کا درجہ دے دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر گروہ کے اپنے اپنے ہیرو، اپنے اپنے قاتل اور اپنے اپنے شہید ہیں۔ ایک کا شہید دوسرے کا مجرم ہے۔ ہر گروہ نے دوسروں کے ہیروز کے لئے ہتک آمیز القابات تیار کیے۔ امجد صابری قتل ہوے تو بحث یہ چھیڑی گئی کہ کیا ایک قوال کو شہید کہا جا سکتا ہے۔ خرم ذکی قتل ہوے تو ان کی نعرہ باز طبیعت کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کیا کسی کے قتل کا قاتل کے علاوہ بھی کوئی اور ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ جی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے استعماری سائنس درکار ہے۔ فلسطینیوں کی سیاسی، قومی اور بڑی حد تک پر امن جدو جہد کو پہلے حماس تشکیل دے کر مذہبی رنگ دیا گیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنے وزیر اعظم پر اس تنظیم کے بنوانے کی ذمہ داری عائد کی۔ پھر ان مذہبی گروہوں کو پر تشدد کارروایوں پر اکسایا گیا۔ اور پھر ان کارروائیوں کو ان کے بہیمانہ قتل کا جواز ٹھہرایا گیا۔ ہم نے نسل کشی شروع کی جب رد عمل میں اکّا دکّا واقعات رو نما ہوے ہم نے سارے معاملے کو برابر کی چوٹ قرار دے کر ہاتھ جھاڑ لئے۔ خدا لگتی کہئے جو کچھ استعمار کے ساتھ مخصوص تھا محکومین کے مختلف گروہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ وہی کچھ نہیں کیا۔

محکومین کی ذہنی تربیت اپنے بارے میں متضاد تصورات کے زیر اثر ہوتی ہے۔ استعمار کی ہر آن بڑھتی علمی طاقت کا دیو جیسا خوف، اپنی علمی بے مائیگی کا روح فرسا احساس ۔۔ استعمار کی ترقی اور اپنی دگر گوں صورتحال کے مابین بڑھتا ہوا فاصلہ اور اس پر بے تیغ لڑنے والے سپاہیوں کے رجز۔۔۔ یہ سب ایک ایسا پر تضاد ذہن ترتیب دیتے ھیں جس کے لئے عزائم کی تدوین اور سمت کا تعین مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ وہ Loss ہے جسے ڈاکٹر اختر احسن نے بچے اور والدین کے تعلق کے حوالے سے بیان کیا اور ہم نے اس کا اطلاق استعمار اور محکومین پر کر کے پاکستانی صورتحال کو سمجھنے کی ایک طالب علمانہ کوشش کی ہے

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سلسلہ پہلے ہم سب پر  بھی شائع ہوا

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply