میں آزاد ہوں۔۔۔۔مرزا مدثر نواز

اس کے آباؤ اجداد نے بابر کے دور میں ہرات سے ہندوستان ہجرت کی جو جانے پہچانے سکالر اور منتظم تھے۔ اس نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد اور مختلف اساتذہ سے حاصل کی کیونکہ اس کے والد اسے مدرسہ بھیجنے پر تیار نہ تھے۔ سولہ برس کی عمر میں اس نے دوسرے طلباء کو فلسفہء‘ ریاضی اور منطق کی تعلیم دینا شروع کر دی‘ جس کے فوراً  بعد اس کا سر سیّد احمد خاں کی تصنیفات سے تعارف ہوااور وہ ان کے جدید تعلیمی نظریات سے بہت متاثر ہوا۔ اسے احساس ہوا کہ حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ کہلوانے کے لیے جدید سائنس‘ فلسفہ اور ادب کی تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ بہت جلد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے انگریزی زبان سیکھنی چاہیے جسے سیکھ کر وہ اس قابل ہو گیا کہ انگریزی کتابیں پڑھ سکے اور اپنے آپ کو تاریخ اور فلسفہ کے مطالعہ کے لیے خاص طور پر وقف کر دیا۔ یہ وقت اس کے لیے بہت زیادہ ذہنی پریشانی کا باعث تھا کیونکہ وہ ایک کٹر مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا جو فرسودہ خیالات کے راستوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور بغیر سوال و جواب روایتی زندگی کے تمام رسم و رواج کو قبول کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مروجہ روایات و عقائد سے ہم آہنگ نہ کر سکا اور اس کا دل بغاوت کے خیالات سے بھر گیا۔ ابتدائی تربیت اور وہ خیالات جو اس نے اپنے خاندان سے حاصل کیے تھے ‘ اس کو مطمئن نہ کر سکے اور اس نے اپنے خاندان کے مدار سے باہر نکلنا اور اپنا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جس چیز نے اسے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان اختلافات کے بارے میں اس کا اظہار تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ تمام مسالک ایکدوسرے کے اتنے مخالف کیوں ہیں حالانکہ ان سب کے دعوے کے مطابق سب کا منبع و ماخذ ایک ہے۔ وہ خود کو اس اعتقادی یقین سے ہم آہنگ نہ کر سکا جس کی بنیاد پر ہر مسلک نے دوسرے کو بدعتی‘ کافر اور غلط قرار دیا۔ تقلید پسند طبقات کے درمیان حائل اختلافات نے اس کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کر دیئے لہٰذا اس نے بذاتِ خود مذہب پر غورو فکر کرنا شروع کر دیا۔ دو یا تین سال کی بے چینی کے بعد وہ اپنے شکوک و شبہات کا حل تلاش کرنے کے قابل ہوا اور مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد وہ مرحلہ آیا جب اس نے اپنے آپ کو تمام رسم و رواج کے بندھنوں سے آزاد پایا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے راستے کا انتخاب خود کرے گا لہٰذا اس نے اپنا قلمی نام ’’آزاد‘‘ رکھا جو یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنے وراثتی عقائد سے کسی صورت چمٹا ہوا نہیں ہے۔ وہ فیروز بخت یا محی الدین احمد یا المعروف ابو الکلام آزاد تھے۔(Ref:India Wins Freedom)
اسد حسین ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس کے ساتھ اگر آپ کی نشست ہو تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں جو بااخلاق اور درد دل کی خوبی سے مالا مال کسی بھی وقت دوسروں کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے‘ مسکراتے چہرے کے ساتھ وہ انتہائی نازک و حساس مذہبی معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ بے پناہ پر سکون انداز میں ہر موضوع پر مکالمہ کرنے والا اچانک عام انتخابات کے موقع پر ایک سیاسی جماعت کی محبت میں گرفتار ہوا اور اپنی تمام تر توانائیاں اس جماعت کا دفاع کرنے میں لگا دیں‘ دوسروں کے ساتھ بحث میں غصیلا و جارحانہ انداز عام سی بات تھی اور وہ خیال کرتا تھا کہ اس کا نقطہ نظر اختلافات سے پاک اور ہر حال میں اتفاق کا حقدار ہے۔ حلقہ احباب میں ہر کوئی حیران تھا کہ مزاج میں اتنی نرمی کا حامل ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں اس حد تک کیسے چلا گیا کہ اس کے خلاف کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔
دفاتر‘ پبلک مقامات اور کسی بھی قسم کے اکٹھ میں یہ مشاہدات عام سی بات ہے۔ بد قسمتی سے ہم ایک شخصیت پرست معاشرے کا حصہ ہیں جس میں اپنے آئیڈیل کو معصوم اور ناپسندیدہ کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ہی گردانا جاتا ہے۔ وہ سیاسی قائدین و شخصیات جو اقتدار میں ہوں توعام لوگ تو دور کی بات‘ کابینہ کے ممبران سے بھی ملاقات نہ کریں‘ ان کی حمایت اور پیار میں دوسروں سے دست و گریباں ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جو ہر اچھائی برائی کا دفاع کرے اور اختلاف کی گنجائش نہ رکھے‘ اسے غلام یا درباری کہا جاتا ہے جبکہ آزاد لوگ تمام تر مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے ہمیشہ غلط و صحیح میں تمیز رکھتے ہیں۔ کاش ہم بحیثیت قوم شعور کے اس درجے تک پہنچیں جہاں وسیع ذہن کے ساتھ دوسروں کی رائے کا احترام کیا جائے‘ اپنی رائے کو حتمی تصور نہ کیا جائے‘ تمام تر پیارو محبت اور تعصبات سے بالاتر ہو کر غلط کو غلط کہنے کی ہمت پیدا کی جائے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت اور اسے ووٹ ڈالنا آپ کا حق ہے لیکن اس کی محبت میں اسے ہر حال میں مثالی ثابت کرنے کی خاطر دوسروں سے الجھنا کسی طور زیبا نہیں لہٰذا سیاسی لوگوں کی حمایت میں اپنے باہمی تعلقات خراب نہ کریں اور خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ ’’میں آزاد ہوں‘‘۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”میں آزاد ہوں۔۔۔۔مرزا مدثر نواز

  1. محترم اگر جان کی آمان پاؤں تو ایک عرض ہے کہ آپ کا انداز بیان انتہائی جاندار ہے مگر تمہید باندھنے میں مزید نکھار کی ضرورت ہے۔۔۔

Leave a Reply to Wasim Mudassar Cancel reply