جانوروں سے ہارٹ ٹرانسپلانٹ۔۔۔۔۔۔پہلی بارش

دنیا میں ہر برس لاکھوں مریض دل کے ٹرانسپلانٹ کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن بہت کم لوگ موت کے بعد دل عطیہ کرتے ہیں اسلیے دل کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد بروقت ٹرانسپلانٹ نہ ہوسکنے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہے ،

Advertisements
julia rana solicitors london

اسکا ایک علاج سؤر سے انسان میں دل کا ٹرانسپلانٹ ہے ، سؤر کا دل قریبا انسانی دل کے سائز کا ہوتا ہے لیکن اس آپریشن میں بہت سی ممکنہ قباحتیں ہیں ، چونکہ بندر انسان سے ارتقائی طور پر بہت قریب ہیں اسلیے تجرباتی طور پر یہ ٹرانسپلانٹ سؤر سے بندروں میں کیا جاتا ہے لیکن اس میں رکاوٹ یہ ہے کہ بندر کے خون کا دفاعی نظام سؤر کے دل کو رد کر سکتا ہے ، اسی طرح سؤر کے دل کی رگوں میں بندر کے خون کا جمنا ، دل میں ٹرانسپلانٹ کے بعد مزید گروتھ اور بندر کا بڑھا ہوا بلڈ پریشر، ان سب عوامل کی وجہہ سے یہ آپریشن زیادہ کامیاب نہیں رہے اور انکے بعد بندر کا زیادہ سے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کا ریکارڈ دو ماہ سے بھی کم تھا ،

اب جرمنی کے سائنس دانوں نے ان تمام عوامل پر قابو پانے کی کوشش کی ہے ، انہوں نے سؤر کے ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے ان سے انسانی پروٹینز ”’تھرومبو موڈولین اور سی ڈی چھیالیس ” بنوائیں جو خون کے جمنے کو روکتی ہیں اور بندر کے خون کے دفاعی نظام کے خلاف موثر ہیں ، ساتھ ہی انہوں نے کچھ دواؤں کی مدد سے بندر کا بلڈ پریشر کم کیا ،اور ٹرانسپلانٹ سے قبل دل میں مسلسل آکسیجن و غذائیت سے بھرا محلول انجیکٹ کرتے رہے تا کہ بدن سے باہر دل کو نقصان نہ پہنچے .

نتیجہ : کچھ بندر ٹرانسپلانٹ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہے جو کہ ماضی کی نسبت ایک بہت بڑی کامیابی ہے ،

اب خیال یہ ہے کہ اگر ان آپریشنز میں کامیابی کی شرح مناسب رہی اور بندر طویل عرصے تک بغیر کسی عارضے کے زندہ رہے تو اسکو ابتدائی تجرباتی طور پر انسانوں میں آزمایا جاۓ گا ، آداب

یہ تحقیق جو دو ہفتے قبل شائع ہوئی اس پر ویڈیو رپورٹ یہاں ،

https://www.youtube.com/watch?v=ZpqYL9zKr8I

تفصیلی رپورٹ یہاں ،

https://www.nature.com/articles/d41586-018-07419-5#ref-CR6

تحقیق کا لنک یہاں ،

https://www.nature.com/articles/s41586-018-0765-z…

اس کام کے لیے سؤر میں جینیاتی تبدیلیوں پر امریکی سائنس دانوں کی تحقیق یہاں ،
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/27045379?dopt=Abstrac

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply