گھر میں آج کل کچھ تعمیراتی کام ہورہا ہے۔ پہلے تو ابا کی بیٹھک پکی کروائی ،اب صحن کا اکھڑا پلستر دوبارہ سے لگوایا جارہا ہے.
جگہ جگہ اینٹیں،بجری ،سیمنٹ اور ریت کے ڈھیر لگے ہوۓ ہیں۔اماں کو تو دیکھ دیکھ کے ہول پڑ رہے ،اماں ٹھہری سدا کی صفائی پسند ،کیونکر برداشت ہوتا اتنا کھلارا؟
شام میں مستری کام مکمل کر کے جانے لگے تو اماں نے مستریوں کے ساتھ آۓ گاؤں کے بوڑھے کمین مزدور کو روک لیا۔۔۔چاچا! کم (کام)تو سارا مک گیا اب کل دیہاڑی پہ آکے آپ یہ سارا کھلارا سمیٹ دینا۔
میں تو خود ہی کرلیتی، پر یہ کمر کا درد تو لگتا قبر تک ساتھ جاۓ گا اور اوپر سے یہ اولاد بھی کسے کھاتے کی نہیں۔
اماں کمر پہ ہاتھ دھرے گھور کے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔
میں نے احتجاج کرنا چاہا لیکن بابا جی کے سامنے چپ میں ہی عافیت سمجھی۔
کمین بابا نے خوشی سے ہامی بھرلی ۔
انہیں اور کیا چاہیۓ تھا ایک دن کی دیہاڑی کا بندوبست ہو گیا تھا۔
اگلے دن بابا صبح ہی صبح آگۓ ، پھر جو جڑے کام پہ کہ پل بھر بھی سانس لینے کو نہ رکیں ۔
ساٹھ سال کے بابا کی پھرتی دیکھ کہ میں حیران رہ گئی۔
اماں ! تو اچھا نہیں کر رہی ۔۔۔بیچارے بوڑھے سے اتنا کام کروا رہی ہے۔
میرے دل میں انسانیت کی جو ٹرپ تھی وہ ابل ابل کے باہر آرہی تھی۔
“تو بوہتی میری ماں نہ بن،میں بھی غریب کا بھلا ہی سوچ رہی ہوں ۔
اب تو مجھے سبق پڑھاۓ گی ؟
اماں گویا برا مان گئی ۔
لیکن میرے دل کو قرار نہیں آرہا تھا ۔
پر جب شام میں اماں کو بابا کو پانچ سو کی جگہ ہزار روپے مزدوری اور نئے کپڑوں کے دو سوٹ دیتے دیکھا تو ۔۔۔ مانو دل کو ٹھنڈ پڑ گئی۔
“لیکن اماں جب بابا کو پیسے دے کے بعد دروازے سے واپس مڑی تو منہ اترا ہوا سا تھا”۔
کیا ہوا اماں ؟میں نے پریشانی سے پوچھا
اماں میرے پاس چارپائی پہ بیٹھتے ہوۓ بولی:
“پتر یہ جو کمین لوگ ہوتے ہیں نا ، یہ کبھی خوش نہیں ہوتے ،انہیں جتنا مرضی دے لو یہ کبھی شکر نہیں کرتے ۔
لو بتاؤ بھلا؟ دوگنی دیہاڑی کے ساتھ دو لٹھے کے سوٹ دیے اور پوچھ لیا، چاچا خوش ہیں نا؟
“کہتا مرضی ہے پت ”
کیا تھا جو خوش ہوجاتا ،شکریہ ادا کرتا، دعا دے دیتا، پر نہ جی یہ کمین لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے۔یہ ہوتے ہی ناشکرے ہیں۔کمین جو ہوۓ آخر ۔
اماں پھولے منہ اور بجھے دل کے ساتھ اٹھ کے باورچی خانے میں چلی گیئں ۔
اور سبزی کاٹتے میرے ہاتھ وہیں رک گۓ۔
اماں کمین کون ہوتے ہیں ؟کمین تو ہم سب ہیں اوپر والے کے کمین۔
“ہم بھی تو یہی کرتے ہیں” ۔
“وہ جتنا مرضی نواز دے نہ کبھی خوش ہوتے نہ کبھی شکر کرتے ”
پھر آج بابا سے شکوہ کیوں ؟
اسی پاک ذات کے دیے ہوۓ میں سے تھوڑا سا اس کی مخلوق کو دے دیا تو پھر صلے کی امید کیسی؟
وہ کب ہم سے صلہ چاہتا ہے؟
کب ہم سے حساب مانگتا ہے؟
شکر کریں یا نہ کریں ،دیتا ہے نا پھر بھی ہر حال میں ؟
پھر اماں ہمیں کیوں اتنا دکھ ہوتا ہے؟
وہ اللہ بھی تو یہی چاہتا ہے ناں کہ اس کے دیے پہ راضی رہیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کریں ۔
“یہ تو نا انصافی کی اماں تو نے بابا کے ساتھ ”
“ہم سارے ہی کمین ہیں ”
“اپنے خالق کے ”
“اس کے ہاں تو سب برابر ”
“بس تقوی ٰٰٰ والےکا معیار تھوڑا اونچا ہے
پر ہم گناہگاروں کو کہاں تقوی عطا ہو گا؟اور کیسے ہوگا؟
سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو میں نے خود کو سجدہ شکر میں پایا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں