موجودہ راولپنڈی ڈویژن میں شامل چاروں اضلاع اٹک ،چکوال،جہلم اور راولپنڈی کے عوام جری اور جفاکش ہیں، پوٹھوہار کے مکین انگریز دور سے قبل بھی ہر زمانے میں بیرونی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے ہیں،اس علاقے کے بہادر سپوتوں نے برطانوی دور حکومت میں تاج برطانیہ کی طرف سے لڑتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کئی محاذوں پر داد شجاعت رقم کی،پوٹھوہار سے سینکڑوں مسلمان اور سکھ فوجیوں کو دونوں عالمی جنگوں میں بھرتی کیا گیا،ان میں سے متعدد کو برطانوی حکومت کے سب سے بڑے فوجی اعزازات ’’وکٹوریہ کراس ‘‘اور’’ ملٹری کراس ‘‘سے نوازا گیا،پہلی عالمی جنگ میں سب سے زیادہ فوجی قصبہ دوالمیال سے گئے تھے اور ان کی تعداد460تھی، دوسرا نمبر بھی علاقہ کہون کے قصبہ وعولہ نے حاصل کیا یہاں سے عالمی جنگ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد369تھی،لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد آصف کے دادا کیپٹن(ر) غلام محمد نے پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر اپنے گاؤں قصبہ دوالمیال میں تاج برطانیہ سے توپ بھی نصب کرائی تھی۔
برطانوی حکومت نے جب برصغیر میں ریل کا نظام متعارف کرایا توپوٹھوہار بیلٹ میں موجود زرعی اجناس اور دیگر معدنیات کی بروقت ٹرانسپورٹیشن اور علاقہ مکینوں کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے کیلئے مندرہ بھون ریلوے ٹریک بچھایا گیا،75کلومیٹر طویل ٹریک کو تین حصوں میں بچھایا گیا،یکم مئی 1915ء کو مندرہ سے ڈھڈیال تک 44.4کلومیٹر مندرہ ڈھڈیال سیکشن کھولا گیا،ڈھڈیال چک نورنگ سیکشن یکم جون 1915ء اور چکوال بھون سیکشن 15جنوری 1916ء کو کھولا گیا،کئی دہائیوں تک اس علاقے کے مکینوں کا اکلوتا ذریعہ آمد و رفت یہی ریلوے لائن تھی،ٹریک پر پہلے بھون ایکسپریس ،پھر چکوال ایکسپریس اور بعد ازاں ریل کار چلائی گئی،1980ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک یہ اس علاقے کے لوگوں کا پسندیدہ ذریعہ سفر تھا، یہ ریلوے لائن یہاں کے بڑے تجارتی مرکز بھون کو کلکتہ سے ملاتی تھی۔ 70سال سے زائد عرصہ تک یہ ٹریک مسافروں کی سہولت اور سامان تجارت کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا رہا‘چکوال سے صبح 6بجے ریل کار جاتی تھی جو سوا سات بجے راولپنڈی پہنچ جاتی تھی۔ طالب علم اور ملازم پیشہ لوگ 8 بجے تک اپنے اپنے تعلیمی اداروں اور دفتروں میں بروقت پہنچ جایا کرتے تھے،پوٹھوہار کے اولیاء اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متعدد کتب کے مصنف مقصود احمد راہی نے اپنی کتاب ’’محبتوں کی امانتیں‘‘کے صفحہ نمبر 76پر 1965ء میں راولپنڈی سے بذریعہ ’’بھون میل‘‘دولتالہ ریلوے سٹیشن تک سفر کی روداد قلمبند کی ہے،چکوال کے ناول نگار اقبال فیروز،قصبہ بھون سے تعلق رکھنے والے دوبھائیوں شورش ملک مرحوم(راولپنڈی سے قومی اخبار کے ایڈیٹر) ،دھنی تاریخ وثقافت کے خالق معروف محقق پروفیسر انور اعوان،بھون کے ہی رائے بہادرموہن سنگھ(اوبرائے ہوٹل ممبئی کے مالک)،ہریال نزد ہرنال سے تعلق رکھنے والے سکھوں کے صف اول کے سیاسی رہنماء ماسٹر تارا سنگھ،گاؤں راماں کے سابق گورنرپنجاب جنرل(ر)سوار خان،بانیان دربار بھنگالی شریف پیر سید امام علی شاہ ہمدانی،پیر سید عبداللہ شاہ ہمدانی سمیت کئی معروف اور غیر معروف شخصیات نے اس ٹریک پر سفر کیا،قیام پاکستان کے موقع پر 1947ء کے فسادات میں برصغیر کے غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں جب مسلمانوں کی گردنیں کاٹی گئیں تو رد عمل کے طور پر پورے پوٹھوہار بیلٹ میں بھی سکھوں اور ہندوؤں کو تہہ تیغ کیا گیا،دادی جان مرحومہ بتاتی تھیں کہ انکے بڑے بیٹے اور میرے تایا جان محمد رمضان مرحوم جو اس وقت 14سال کے تھے،بھی علاقے کے دوسرے لوگوں کیساتھ مرادی جنجیل ریلوے سٹیشن پر ’’جہاد‘‘میں حصہ لینے اور ’’مال غنیمت‘‘حاصل کرنے کیلئے پہنچے ہوئے تھے،بھون سے غیر مسلموں کو لیکر آنے والی ٹرین پچھلے سٹیشنوں پر ہی لُٹ چکی تھی باقی کسر مرادی جنجیل پر موجود لوگوں نے کٹی پھٹی مردہ خواتین کے کانوں ،ناک اور بازوؤں سے طلائی زیورات اتار کر نکال دی۔
1980ء میں نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی جانب سے چلائی جانیوالی تیز ترین بس اور ویگن سروس شروع ہونے کے بعد ریل سروس کے زوال کے دن آگئے،بااثر ٹرانسپورٹ مافیا کیساتھ ملی بھگت کر کے ریلوے حکام نے نہایت چالاکی کیساتھ پہلے ٹرینوں کے او قات کار تبدیل کر کے ٹرین سروس کو غیر موثر اور غیر منافع بخش بنایا گیا اور پھر منصوبے کے مطابق اسے بند کر دیا گیا‘ تا کہ مقامی با اثر ٹرانسپورٹرز کے کاروبارکو منافع بخش بنایا جا سکے۔صبح کے اوقات میں اصولاََبھون سے ریل گاڑی راولپنڈی کی جانب اور شام کو راولپنڈی سے بھون کی طرف گاڑی چلنی چاہیے تھی لیکن ریلوے انتظامیہ نے نجی ٹرانسپورٹ سروس کو فائدہ پہنچانے کیلئے نہایت چالاکیساتھ صبح کے اوقات میں راولپنڈی سے بھون کی طرف اور شام کے اوقات میں بھون سے راولپنڈی کی طرف گاڑی چلانے کے اوقات مقرر کر دیئے جس سے سینکڑوں طلباء وطالبات اور ملازم پیشہ افراد کیلئے ریل سروس میں دلچسپی ختم ہوکر رہ گئی،عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ جان بوجھ کر ریل گاڑی کو سست روی سے چلایا جا تا جو کہ 4سے 5گھنٹوں میں راولپنڈی پہنچتی جبکہ مسافر ویگنیں یہی سفر ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں طے کر لیتی تھیں،تاخیر سے منزل پر پہنچانے کے سبب لوگوں نے ریل گاڑی میں سفر کرنا ہی چھوڑ دیا،جس پر1993ء میں نواز دور حکومت میں 75کلومیٹر طویل ریل سرو س کو غیر منافع بخش قرار دیکر بند کر دیا گیا،ٹریک کی بندش کے بعد ایک بار پھر نواز دور حکومت میں1997ء میں ٹریک کو اکھاڑدیا گیا،جند اعوان ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت جنرل(ر) عبدالمجید ملک مرحوم پر انکے سیاسی مخالفین یہ الزام دھرتے رہے کہ ریل سروس کی بندش اور اسے اکھاڑنے کا سارا عمل وفاقی وزیر کی رضامندی سے سرانجام دیا گیا ،عبدالمجید ملک تادم مرگ اس الزام کی تردید کرتے رہے اور اپنی سوانح عمری ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘میں اپنی پوزیشن واضح کر دی ‘‘،مقامی آبادی کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بضد ہے کہ اس ریلوے لائن کا سکریپ ڈیڑھ روپے فی کلو کے حساب سے اتفاق فاؤنڈری کو بیچا گیا ۔تاہم اس الزام کی کسی غیر جانبدار ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوسکی، ٹریک کی بندش کے بعد زیادہ تر ریلوے سٹیشنوں اور اس سے ملحقہ زمینوں پر قبضہ مافیا نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں،چکوال اور ڈھڈیال میں ریلوے کی اربوں روپے مالیت کی قیمتی اراضی پر نجی اور سرکاری ادارے قابض ہیں،اسی طرح اپنے اندر ایک صدی کی تاریخ سموئے ہوئے تاراگڑھ،سکھو،مرادی جنجیل،دولتالہ،سود بھڈانہ،سید کسراں،ڈھڈیال،چک نورنگ ،چکوال اور بھون کے ریلوے سٹیشنز کی عمارات خستہ حالی کا شکار ہیں،پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ضلع چکوال میں سیمنٹ فیکٹریاں قائم کی گئیں تو 2007ء میں چوآسیدن شاہ میں منعقدہ ایک تقریب میں اس وقت کے ضلع ناظم چکوال سردار غلا عباس نے اپنی تقریر میں پرویز مشرف سے مندرہ بھون ریلوے ٹریک بحال کرنے کی اپیل کی،جس پر بعد ازاں سابق صدر کی ہدایت پر اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 26جون 2007ء کو چکوال کا دورہ کیا اور ریلوے گراونڈ میں منعقدہ جلسہ عام میں انھوں نے یہ ریلوے لائن دوباہ بچھانے کا اعلان کیا،اس موقع پر انہوں نے ریلوے اسٹیشن پر ٹریک کی بحالی کیلئے نصب تختی کی نقاب کشائی بھی کی اور کہا کہ اس روٹ پر 6 ماڈرن ریلوے اسٹیشن تعمیر کیے جائیں گے،اسی اجتماع میں سردار غلام عباس نے بھی اپنی تقریر میں کہاں کہ آئندہ سال یعنی 2008ء میں چکوال کی طالبات اسی ریل گاڑی میں فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا جایا کریں گی،لیکن افسوس یہ دعوے اور وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوسکے اور چکوال ریلوے سٹیشن پر نصب تختی کو بھی نامعلوم افراد نے اکھاڑ دیا، ٹرین میں ہزاروں مسافر محفوظ ترین اور سستاسفر کرتے تھے۔ یہ سہولت چھن جانے کے بعد عام مسافروں کے لیے تنگ وینوں پر راولپنڈی اسلام آ باد کا سفر کسی عذاب سے کم نہیں،تمام ریلوے اسٹیشنزکی عمارتوں سے لوہا‘ اینٹیں‘ اور قیمتی سامان چوری ہو چکا ہے۔ 2006ء میں محکمہ ریلوے نے یہ اراضی نیلام کرنے کا اشتہار دیا تو ملک فدا الرحمن نے اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رِٹ دائرکی۔ تب ریلوے حکام نے اشتہارمنسوخ کر دِیا اور ٹریک بحال کرنے کاوعدہ کیا مگر بعد ازاں بحالی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔
2009ء میں ریلوے ٹریک بارے ملک فدا الرحمن کے لکھے ہوئے ایک کالم پر اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے سو موٹو ایکشن لیا تو چیئر مین ریلوے نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ یہ ٹریک غیر منافع بخش تھا‘ لہٰذا بند کر دیا گیا، سابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انگریز نے ریلوے لائن مسافروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بچھائی تھی‘ اس کامنافع بخش ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں وفاقی سیکریٹری ریلوے نے عدالت میں تحریری وعدہ کیا کہ بہت جلد یہ ٹریک بحال کر کے ٹرین چلا دی جائے گی۔ ستمبر 2009ء میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ سرکاری اراضی فروخت نہ کرنے اور نئی ریلوے لائن بچھانے کا حکم جاری کیا۔ 26مارچ 2010ء کو پی پی دور حکومت میں وزیر مملکت ریلوے افضل سندھو نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ مندرہ بھون ڑیلوے ٹریک کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی جاچکی ہے اور ٹریک جلد بحال کیا جائے گا۔حکومتیں آ تی جاتی رہیں‘ مگر اس حکم پر آ ج تک عمل نہ ہوا ہے۔ اب اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عظمیٰ کا بنچ توہین عدالت کی کارروائی کر رہا ہے۔2010ء میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائے گئے کمیشن نے ریلوے ٹریک کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ جمع کرائی،جس پر عدالت نے ٹریک کی بحالی کیلئے متعلقہ اداروں کوہدایات بھی جاری کیں، ریلوے چیئرمین نے اپیکس کورٹ کو بتایا تھا کہ ٹریک کی بحالی کے کافی زیادہ چانسز ہیں،اپریل 2017ء میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے مندرہ چکوال ریلوے لائن کی بحالی کیلئے وزیراعظم میاں نواز شریف کو خط لکھاجس میں انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چکوال مندرہ ریلوے لائن کی بحالی کیلئے زور دیں ، خط میں سینیٹر عبد عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ریلوے لائن کی بحالی اور ریلوے لائن کی جگہ واگزار کرانے کیلئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے بھی بات کی تھی کہ وہ اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرائیں جس پر انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایت کے منتظر ہیں۔اہلیان علاقہ نے اس خط کو بھی ’’پوائنٹ سکورنگ‘‘قرار دیا،کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال میں اسطرح کی ڈیمانڈ سمجھ سے بالاتر تھی،سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے اور 9سال گزرنے کے باوجود بھی ٹریک بحال نہ ہونے پر ملک فدا الرحمن نے انجم افشاء غضنفر ایڈوووکیٹ کے ذریعے ریلوے لائن کی بحالی کے سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں توہین عدالت کی درخوست دائر کی ،5اکتوبر2018ء کو ہونیوالی سماعت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ریلوے کی اراضی کو ریاست کی زمین قرار دیتے ہوئے ریلوے حکام کو اس کی خرید و فروخت کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی ،24اکتوبرکو تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں حکم دیا تھا کہ پاکستان ریلوے اپنی فروخت شدہ اور لیز پر دی جانے والی زمین کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرے،ابتدائی تخمینے کے مطابق اس ریلوے لائن کی بحالی پر اب چھ سے سات ارب روپے کی ضرورت ہے۔
ضلع چکوال میں اب روزانہ کی بنیاد پر سیمنٹ فیکٹریو ں کی جانب سینکڑوں ٹرک کوئلے کے جاتے اور وہاں سے اتنی ہی مقدار میں سیمنٹ سے لدے ٹرک ملک بھر کے تمام حصوں کو روانہ کیے جاتے ہیں،اگر ٹریک بحال کر دیا جائے تو سیمنٹ، کوئلے،پتھر،تیل،نمک اور دیگر معدنیات سمیت زرعی اجناس کی آسان اور سستے داموں ترسیل کیساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر راولپنڈی جانیوالے طلبا و طالبات،نجی اور سرکاری اداروں کے ملازمین کو سہولت ہوسکتی ہے۔ چکوال کی سیمنٹ فیکٹریوں سے روزانہ ہزاروں ٹن سیمنٹ لے کرنکلنے والے ٹرالرز نے ضلع بھر کی سڑکوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اور اب نئی تعمیر ہونیوالی مندرہ چکوال روڈ کا بھی ستیا ناس ہونے کا امکان ہے،جسے بچانے کیلئے بھی یہ ٹریک بچھا نا ضروری ہے۔ سیمنٹ فیکٹریوں سے روزانہ کی بنیاد پرکئی ہزار ٹن سیمنٹ مڈل ایسٹ، ایران ، سعودی عرب، بھارت، سری لنکا سمیت پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں جا رہا ہے۔ مڈل ایسٹ، ایران اور سعودی عرب کے لئے سیمنٹ کراچی بندرگاہ تک پوری پوری ٹرین بک ہو کر جا سکتی ہے۔ بھارت واہگہ کے راستے سیمنٹ جا سکتا ہے اور وہاں تک ریلوے لائن موجود ہے ۔حکومت وقت کو چاہیے اس علاقے کے باسیوں کو سہولت دینے کیلئے ریلوے ٹریک کو بحال کرے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں