پاکستان میں خواتین کے استحصال کا ذمہ دار کون؟

پاکستان میں خواتین استحصال کا شکار ہیں ، میرا مطلب   عمومی استحصال  سے ہے،جنسی استحصال میرا موضوع نہیں ،اس کے لیے الگ سے بات ہو گی۔پاکستانی معاشرے میں خواتین کو قدم قدم پر مصائب اور استحصال کا سامنا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین گودسے گور تک دکھ سہتی ہیں،خواتین کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا ذمہ دار عام  طور پر مرد   کو  ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔

اس ضمن میں حقوق نسواں کے نام نہاد علمبردار مرد طبقے کو روایتی تنقید کا نشانہ بناکر اپنی طرف سے گمان کر لیتے ہیں کہ ہم نے خواتین کو درپیش مسائل کا خاتمہ کر دیا جبکہ   باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو  صورتحال یکسر مختلف  نظر آتی ہے، خواتین کے استحصال کے خاتمے کے لیے حقیقت کی تلاش ازحد ضروری ہے ۔کیونکہ  جب تک  مرض کی وجوہات کا علم نہ ہوگا،کوئی بھی معالج  بیماری کا علاج  کرنے میں ناکام ٹھہرے گا،درست تشخیص کے بعد ہی علاج ممکن ہے۔ ہمارے آس پاس موجود    لوگوں کے رویے اس ظلم کے ذمہ داروں  کا تعین کرتے ہیں۔ہمارے ہاں شادی کے اگلے ہی دن دلہن کے اردگرد  موجود خواتین چہ مگوئیاں شروع کردیتی ہیں۔دلہن کے لباس سے شروع ہونے والے تبصرے  اس کی رنگت اور پھر جسمانی خدوخال میں مین میخ نکالنے کے بعد بھی ختم نہیں ہو  پاتے،غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

چند دن کے بعد نیا راگ الاپا جاتا  ہے۔۔ جس میں اٹھتے بیٹھتے  دلہن سے چاند سے پوتے کی فرمائش  کی جاتی ہے ،ساس کا ارشاد ہوتا ہے مجھے تو بس لڑکا چاہیے،کسی نے آج تک نئی نویلی دلہن کو شادی کے فوری بعد یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالی دلہن کو چاند جیسی بیٹی عطا فرمائے ۔کم از کم میرے مشاہدے میں تو آج تک اس قسم کی دعا نہیں آئی۔کتنی عجیب بات ہے کہ    شادی کے دوسرے دن ہی دلہن سے پوتے کی فرمائش شروع کردی جاتی ہے۔اور اس پر مستزاد  یہ کہ اس قسم کی خواہش اکثر خواتین ہی کرتی ہیں ۔اگر لڑکی پیدا ہو جائے،تو سب سے پہلا منفی ردعمل بھی گھر میں موجود خواتین کی جانب سے ہی  آتا ہے۔خواتین کے رویے تبدیل ہوجاتے ہیں ۔اور ان کے چہروں پر اداسی کا رنگ غالب آجاتا ہے۔بچی کی ماں اندیشوں میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔اس خوف کی بڑی وجہ خواتین کا منفی رویہ ہی ہوتا ہے۔اور اگر یکے بعد دیگرے لڑکیاں  ہی پیدا ہوں  تو بیچاری عورت کا عورت کے ہاتھوں بدترین استحصال شروع ہو جاتا ہے۔

عورت ہی عورت کو ہمہ وقت لعن طعن کرتی ہے  اور شوہر کی منفی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ دوسری عورت سے شادی کر لو ۔خاوند بھی اس ذہن سازی کے بعد اپنی خاتون سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔بات بات پر ڈانٹ  ڈپٹ اور مار پیٹ معمول کا حصہ بن کر رہ   جاتی ہے۔یہی رویہ  پیدا ہونے والی  معصوم بچیوں سے بھی  روا رکھا جاتا ہے۔ان کی تعلیم و تربیت پر کم توجہ دی جاتی ہے اور بیٹی پیدا ہوتے ہی  خصوصی توجہ سے محروم ہو جاتی ہے ۔اس تمام منظر نامے میں مرد کا کردار ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔کیونکہ تمام خرابیوں میں زیادہ تر خواتین کا منفی کردار شامل ہوتا ہے۔

بچے کی پہلی درسگاہ   ماں کی آغوش ہے اور اس کے بعدگھر اورماحول جہاں بچہ پرورش پاتا ہے۔بچے کے شعور میں خواتین کو کم تر سمجھنا ،ان کو عزت نہ دینا اور اپنی  مردانگی کی دھاک کبھی غیرت کے نام پر بٹھانا  تو کبھی عورت کے ساتھ مار پیٹ کرنا جیسے رویے اسی ماحول سے جنم لیتے ہیں ۔عورت کی مظلومیت کا ڈھول بہت پیٹا جاتا ہے  مگر عورت اپنے دوغلے پن پر لمحہ بھر بھی غور نہیں کرتی  ۔عورت نے خود یہ استحصال کا نظام اپنی منفی فکر اور دوغلے پن سے پیدا کیا ہے ۔عورت کا رویہ بیٹی کے لیے الگ اور بہو کے لیے الگ  ہوتا ہے۔بیٹی کا شوہر اپنی بیوی کا خیال رکھے تو بہت اچھا مگر بیٹا اپنی بیوی کا خیال رکھے تو  اسے  ز ن مرید ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔عورت نے اپنے ارد گرد استحصال پر مبنی رشتے خود پیدا کیے ہیں ۔ساس ،بہو ،نند، بھاوج ،دیورانی، جیٹھانی جیسے رشتوں میں سے محبت بقائے باہمی کے خاتمے کا  ذمہ دار کون ہے ؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت چاہے تو ان رشتوں میں محبت اور خلوص کی چاشنی پیدا کر کے اپنے اس استحصال کا خاتمہ کر دے مگر نہیں ۔۔ان رشتوں میں نفرت حسد اور کینے  کا زہر خواتین خود گھولتی ہیں اور ذمہ دار صرف مرد طبقے کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔جب تک اس دورخی اور دوغلے پن کا خاتمہ نہیں ہوگا ۔استحصال اور جبر صنف نازک کا مقدر ہے گا ۔مرد بھی بلاشبہ  اس تمام صورتحال سے بری  الذمہ نہیں مگر جب تک عورت ہی  عورت کے ساتھ اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائے گی تب   تک نفرت و منافقت کے بیج  استحصال کی فصل اگاتے  رہیں گے۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply