مری سے آگے جہاں اور بھی ہے۔۔۔۔۔شجاعت بشیر عباسی

مری سیاحوں کے لیے ہمیشہ ہی پرکشش رہا موسم سرما ہو تو برفباری جبکہ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوائیں کھانے پورے پاکستان سے سیاحت کے شوقین مری کا رخ کرتے ہیں
لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل مقامی افراد کی طرف سے سیاحوں کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات روپورٹ ہو رہے ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں بھی ایک خاتون پر تشدد کی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں واضح طور پر مقامی افراد ایک خاتون پر تشدد کرتے نظر آ رہے ہیں یقیناً یہ افسوس کا مقام ہے اور یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ  پچھلے سیزن میں مری کا سیاحوں کی جانب سے کیے گے بائیکاٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔یہ برے رویے سیاحوں کو ہمیشہ ہی برداشت کرنے پڑے ہیں البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ واقعات گزشتہ کچھ عرصے سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
اسکے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں جن میں خاص کر مہنگائی اور انتظامیہ کی عدم توجہ کی اکثر سیاح شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے میں سیاح ہمت کریں مری سے صرف 37 کلومیٹر آگے کوہالہ پل کراس کریں اور جنت پہنچ جائیں۔میرا مطلب کشمیر سے ہے جو واقعتاً کسی جنت سے کم نہیں برفانی پہاڑ ندی نالے دلکش وادیاں قدرتی آبشاریں اور مہمان نواز کشمیری میزبان آپ کے منتظر ہیں۔
کشمیر شاید دنیا کا واحد علاقہ ہے جس کی ایک ایک انچ زمین سیاحوں کے لیے باعث کشش ہے اور مہمان نوازی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی کے پچھلے سال آزادکشمیر کے وزیر اعظم خود سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کوہالہ تک آتے رہے جبکہ مقامی نوجوان پھول اور دیگر سفری ضروریات مثلاََ پانی وغیرہ لے کر کوہالہ پل پر سیاحوں کے استقبال کے لیے موجود رہے۔
اگر اخراجات اور سہولیات کی بات کی جائے تو یہ پہلو بھی سیاحوں کے لیے تسلی بخش ہو گا۔
کھانے پینے کی چیزیں انتہائی سستی اور معیاری ہوتی ہیں اور رہائش بھی معقول نرخوں پر میسر ہوتی ہے۔نیلم کیل شاردہ اور بے شمار ایسی جگہیں ہیں جہاں سیاح لطف اندوز ہو سکتے ہیں کشمیر میں کئی ایسے تاریخی مقامات بھی ہیں جو سیاحوں پر سحر انگیز کفیت طاری کر دیتے ہیںاس جنت نظیر ٹکڑے سے اپنی آنکھیں خیرہ کرنے کے لیے سیاح بلا جھجک کشمیر جائیں اور جنت کی ہوائیں کھائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply