شادی ذمہ داریوں کا نام کیوں ؟۔۔۔۔۔ قربِ عباس

ہمارے سماج میں زیادہ تر شادی کو جنسی آسودگی، رومانس اور دوستی سے الگ معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ بیوی اور محبوبہ یا بیوی اور دوست الگ الگ رشتوں کے طور پر لیے جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ مرد کے لیے شادی کرنا ایسا ہے جیسے اُس نے بچے پیدا کرنے والی کسی ایجنسی میں اپنا کھاتا کھلوا لیا ہو، ایک سال بعد اس کو ایک عدد بچہ پیدا کر کے اپنی مہانتا کی داد پانی ہے، اپنے ‘وارث’ کو نظروں کے سامنے دیکھ کر سینہ چوڑا کر کے پھرنا ہے، اچھے شوہر اور پھر اس کے بعد اچھے ‘پاپا’ کا کردار نبھانا ہے۔ کم و بیش ہر اس روبوٹی پاپا کا چہرہ، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، روز مرہ کی سرگرمیاں وغیرہ قریب قریب ایک ہی جیسی ہوا کرتی ہیں۔

بدقسمتی کے ساتھ دوسری جانب عورت کے لیے بھی شادی کچھ زیادہ خوشگوار مرحلہ نہیں ہے، کم از کم اس حد تک تو ہرگز نہیں جس کے بارے میں وہ اپنی جوانی کے دنوں میں تصور کیا کرتی تھی۔۔۔ اُسے تو صرف جھاڑو پوچا سنبھالنا ہے، کھانا پکانا ہے، میاں کے کپڑے تیار کرنا ہیں یا بستر پر اس کی ضرورت پوری کر کے سو جانا ہے، اگلے روز صبح سے پھر وہی روٹین ہے۔

ہمارے معاشرے میں ‘شادی’ ایک بہت گہری نفسیاتی گرہ لگاتی ہے جس کا براہ راست زندگی پر اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ ‘کنٹریکٹ’ ہے جس کے بعد مرد میں احساسِ ملکیت پیدا ہوتا ہے، اس کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ وہ مہان ہے۔ اس وقت وہ ایک خاندان کا سربراہ بن چکا ہے۔ شادی عورت اور مرد کے رشتے میں ایسی ٹھوکر ہے جو اس توازن کو بگاڑ دیتی ہے جو پُر مسرت زندگی کے لیے دو لوگوں کے درمیان برقرار رہنا انتہائی ضروری ہے۔

مرد تصورِ ملکیت کے تابع عورت کا کپڑا لتھا، روٹی، مکان، تحفظ وغیرہ کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے جس میں طاقت کا بھی اظہار موجود ہے دوسری جانب چادر اور چاردیواری میں رہ کر امور خانہ داری عورت کے حصے میں آتے ہیں اور ان کی بنیاد کمزوری پر قائم ہے۔ یعنی مرد طاقتور بڑے کام اور بڑی ذمہ داریاں سنبھالے گا اور ‘صنفِ نازک’ گھر کے چھوٹے موٹے کام سنبھالے گی تا کہ اس کی عزت بھی محفوظ رہے اور اس کو کسی قسم کا نقصان بھی نہ پہنچے۔

آقا باندی، حاکم محکوم، طاقتور کمزور جیسا تصور اسی شادی کی روایت کے تلے پرورش پاتا ہے اور پھر جنسی زندگی کو دیمک لگی لکڑی کی طرح کھوکھلا کر جاتا ہے۔ جہاں پر مرد اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے عورت کے بدن کو پورے حق کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور ضرورت پوری ہوتے ہی الگ ہو جاتا ہے۔ سادہ اور ایماندار عورت ایک سپردگی جیسے عمل سے گزرتی ہے اور اسی کو غنیمت جانتی ہے کہ کسی بہانے ‘انہوں نے’ مجھے چھو تو لیا۔ لذت آشنا، محبت آشنا عورت کے لیے یہ سپردگی کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ بیزاری کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی جنسی خواہشات جب پوری نہیں ہوتیں تو فرسٹریشن مختلف شکلوں میں باہر نکلتی ہے۔ لڑائی جھگڑے، چڑچڑا پن، بیزاری، افسردگی، نا اُمیدی اور خالی پن زندگی کا مقدر بنا رہتا ہے۔

یہ افسوسناک بات ہے کہ پیار محبت اور رومانس کو جوانی کی بھول سمجھا جاتا ہے، اگر عورت پہلے کسی سے محبت کرتی تھی وہ اس محبت کو گناہ سمجھ کر توبہ کر لیتی ہے اور اپنے پتی کے لیے مخلص ہونے کی پوری پوری کوشش کرتی ہے اور مرد شادی سے پہلے والی محبتوں پر نظمیں لکھتا ہے یا پڑھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتا رہتا ہے اور ذمہ دار قسم کا شوہر یا باپ بننے کے لیے دن رات مصروف رہتا ہے۔۔۔ دونوں ایک ساتھ بستر پر ہوتے ہیں لیکن عورت کے تصورات کی پردہ سکرین پر نا چاہ کر بھی میکا بسنے والے آشنا چہرے جھلک رہے ہوتے ہیں اور شوہر کی آنکھوں کے آگے اس کی سابقہ معشوقہ چلمن سے جھانک جھانک کر اس کا جی سلگا رہی ہوتی ہے۔ ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ مرد کی نظریں شادی کے بعد بھی ادھر اُدھر تھرکتی رہتی ہیں، کچھ خواتین چوری چھپے اپنے محبوب سے شادی کے بعد تعلقات بنائے رکھتی ہیں، کچھ اپنے شوہر سے بیزار ہو کر مختلف قسم کے مردوں میں آسودگی کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔

ایسے نا آسودہ دِلوں میں ایک دھڑکا اور کسک لے کر عمر گزارنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

میں نے کبھی کسی عورت یا مرد کو قصوروار نہیں ٹھہرایا، میرے لیے یہ بے چارے محرومیوں کے مارے لوگ ہیں اور اس سماج پر سکوت کی ایسی فضا قائم ہے کہ اس سسٹم سے بغاوت کرنے کی ہمت نہیں ہو پاتی۔ کوئی اگلا راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ یہی خوف مار جاتا ہے اگر مہلک قسم کے سمجھوتے جھیلنے کی بجائے الگ ہو کر سماج کی لعنت ملامت اپنے پلے ڈال بھی لیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا کوئی ایسا مل پائے گا جہاں دونوں کے جسم اور ذہن مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں گے؟

مسئلہ یہ ہے کہ اس ماحول میں لڑکا اور لڑکی کے ساتھ رہنے کے لیے شادی ہی واحد راستہ ہے۔ اگر شادی کے بغیر رہیں گے تو دیگر سماجی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ سو کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم شادی کے ادارے میں موجود ‘شرائط و ضوابط’ اور محبت کو الگ الگ کر کے دیکھنے کی تو اہلیت پیدا کر سکتے ہیں؟

ایسا کیوں ممکن نہیں کہ شادی صرف اسی سے کی جائے جس سے محبت ہو اور پھر شادی جیسی رسم نبھانے کے بعد ہم ان تمام روایتی ‘حقوق و فرائض’ اور سماج کے لکھے ‘میاں بیوی’ سکرپٹ کو پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیں۔ تمام اصولوں سے ہٹ کر من مرضی کی بنیاد پر زندگیاں بسر کریں۔ جہاں پر دونوں کے درمیان اعتماد ہو، احترام ہو، برابری ہو، توازن ہو، محبت ہو، دوستی ہو، دکھ سکھ کی سانجھ ہو، سچائی ہو، ایک دوسرے کو اچھائیوں برائیوں کے ساتھ قبول کیا جائے، ماضی کو نظر انداز کر کے حال کو بہتر بنایا جائے تا کہ مستقبل بھی روشنیوں کے ساتھ سواگت کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی صرف ایک مرتبہ ملتی ہے۔ یہ دوبارہ نہیں ملے گی۔
یہ آپ کی اپنی ہے، اس کو دوسروں کے اصولوں پر جینے میں خرچ نہیں کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply