بروشر ریسپشن پر پڑے تھے۔آتے جاتے ہماری بھی عادت تھی لڑکے لڑکیوں سے گپ شپ کرنے،معلومات لینے ،کچھ اپنے تجربات سُنانے،کچھ اُن کے سُننے ،تھوڑا سا ہنسی مخول ،ترکوں اور استنبول کی تعریف میں تعریفی کلمات سے خوش کرنے کی کوششیں سب چل رہا تھا۔
بروشر ٹرکش میسٹکMystic میوزک اور ڈانس کا تھا۔
’’اچھا تو یہ وہ درویشوں کا رقص ہے۔جسے سیماSemaکہاجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں کہہ لیجئیے کہ روحانیت کے سفر کا بیان ہے۔‘‘ میں نے سیماکو دیکھا۔میری آنکھوں نے اُسے یہ بھی کہا ,ہاں تو کیا کہتی ہو؟‘‘
یہ بھی پڑھیے: خدا کے منتخب لوگوں میں سے ایک سلطان محمد فاتح۔سفر نامہ/سلمٰی اعوان۔۔۔قسط8
’’چلو قونیہ جانا شاید مقدر میں نہیں پر اِسے تو دیکھ لیں ۔‘‘
اُس کی آواز میں قونیہ نہ جاسکنے کا قلق بڑا نمایاں ہوا تھا۔
اتوار،بدھ اور جمعہ ۔وقت دیکھا۔جگہ پر نظر ڈالی۔سر کیجی ٹرین سٹیشن۔یورپ کا پہلا ریلوے اسٹیشن ۔
’’لوبھئی یہ تو نرا گواؤنڈ میں ہے۔بیچ بیچ میں سے بھی چل کر وہاں جا سکتے ہیں۔ میڑو سے تو پانچ منٹ کا فاصلہ ہے اور وقت بھی موزوں ہے۔
بس تو جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر نکل پڑے۔بوڑھی ٹانگوں پر ترس کھایااور میڑو پر جاچڑھیں۔
ایونٹ ہالEvent Hall میں پروگرام تھا۔ہال بھی بڑا شاہانہ انداز کا تھا۔دیواریں دیکھوں،دروازوں کو سراہوں۔گردن کو عقبی سمت نوّے کے زاویے پر جُھکا کر چھتوں کی مدح سرائی کروں۔کوئی تو بتائے آخرکروں تو کروں کیا۔ آنکھوں نے کہا۔
’’عجب بونگیاں ہانک رہی ہو۔معماروں کو سراہو۔بس تو ڈھیر سارا خراج عقیدت انہیں پیش کردیا۔
کرسیوں پر سارے غیر ملکی تھے سوائے ہم دو دیسی عورتوں کے۔سازندوں کی پوری ٹیم بمعہ گانے والوں کے جنہیں مٹرپMutrip کہتے ہیں ساتھ ساتھ نشستوں پر بیٹھی حکم کی منتظر تھی۔کچھ آلات موسیقی تو ہماری شناخت میں آئے۔جن میں بنسری،رباب،ستار،دف،ڈرم،فلیوٹ وغیرہ تھے۔کچھ سے ہماری شناسائی نہیں تھی۔مٹرپ سے آگے درویشوں کی ٹولی بیٹھی تھی۔
اب تک کی زندگی میں درود شریف کوئی ہزار بارپڑھا ہوگا،ہزار بار سُنا ہوگا مگر اُس نے کبھی وہ تاثر نہیں چھوڑاتھاجو اُس لحن داؤدی رکھنے والے شخص نے اُس فضا میں پیدا کیا۔ “سبحان اللہ” کہتے زبان خشک ہوئی جاتی تھی۔
دفعتاً ڈرم کی آواز نے ایک ڈرامائی تاثر کی فضا کو جنم دیا ،جیسے خدا نے کہا ہو، پس ہوجا۔
پھر فلیوٹ پر ایک مختصر سی نغمہ سرائی ہوئی۔ یہ نغمہ جس نے رُوح کو دنیا کے حوالے کرنے کا پیغام دیا۔جونہی یہ نغمہ سرائی ختم ہوئی درویشوں نے اپنے سروں کو جھکایا اور اپنے چوغوں کو اتارتے ، اپنی ایڑیوں پر گھومتے،نیم و ا آنکھوں سے دائرے میں داخل ہونا شروع کیا۔پہلا درویش جونہی اندرآکر رقص میں خود کو گم کرلیتا۔دوسرا رقص کرتا کرتاداخل ہوتا،تیسرا، پھر چوتھا۔ یہ قدم انسانیت کی پیدائش کا عکاس تھا۔
درویشوں کے بازو اُن کے سینوں پر بندھے تھے۔رقص میں یہ کُھلتے گئے۔ دائیں ہاتھ اوپر اٹھتے گئے اور بائیں نیچے ہوتے گئے۔یقیناًیہ اس خیال کا غمّاز تھا کہ ہم خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں کو دیتے ہیں۔ہمارے پاس کچھ نہیں۔
اور جب ہم اُس نیم روشن ہلکی سی خنکی والے ماحول میں نوجوان لڑکوں کے سفید فراکوں کے پھولے ہوئے گھیروں کو سراہتے اور انہیں ایک وجد کی سی کیفیت میں والہانہ گھومتے دیکھتے اور نہ سمجھ آنے والی زبان میں ایک مترنم آواز کو سنتے اِس سحر میں گم تھے۔تو کہیں یادوں کے دریچوں میں مولانا رومی کی جھلکیاں تھیں۔علامہ اقبال کی عقیدتوں کے قصّے تھے۔ان کی شاعری میں اُن کا اثر،کہیں شمس تبریز کے حوالے،کہیں ان کی ذات سے وابستہ معجزے سب ذہنی دنیا میں سب قطاردر قطار چلے آرہے تھے۔
سلیمانیہ لائبریری استنبول کی نوجوان انچارج مسز ایمل چیتن جو مولانا جلال الدین رومی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی واضح تھیں۔اُس کا کہنا تھا ہم اُن سے صرف اُن تراجم کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں جو ہماری مختلف یونیورسٹیوں اور ذاتی طور پر لوگوں نے کیے ۔اُن کا کام فارسی میں ہے جو عثمانی دور میں حکومت اور اشرافیہ کی زبان تھی۔ترکی کے تمام دیہی علاقوں کے لوگوں کیلئے یہ زبان مشکل تھی اور وہ یہ زبان زیادہ بولتے بھی نہیں تھے۔
دراصل اُن کی بہت زیادہ ہردل عزیزی وسط ایشیا ،ایران اور برّصغیر کے علاقوں میں ہے۔گو اب وہ انگریزی،جرمن، فرانسیسی زبانوں میں تراجم کے ذریعے باہر کی دنیا میں بہت مقبول ہوئے ہیں۔
تا ہم ہم تو یہ دیکھ رہے تھے کہ ترکی کے شہروں میں مولانا رومی کا رقص درویشاں، خدائی محبت اوراُس تک پہنچنے کے روحانی سفر کی دلآویز تمثیل اور لحن داؤدی جیسے آہنگ میں اُن کا کلام پڑھا جانا وہ خوبصورت چیز ہے جسکے لئیے دُنیا بھر کے سیاحوں کے پُرے باقاعدہ بُکنگ کے مرحلوں سے گزرتے ہیں اور جم کر شوق و ذوق سے سب کچھ دیکھتے ہیں۔بلا سے کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے ۔ہاں البتہ مختلف بین الاقوامی زبانوں میں چھپے بروشرز اپنا کردار عمدگی سے ادا کررہے ہیں۔
تو وہ شاعر کیسے بنے؟ اُنکی شاعری اور اُن کے کلام میں سوزودرد ،جلنے،تڑپنے اور آہ و فغاں کی کیفیات کیسے پیدا ہوئیں؟وہ تو اِس منزل کے مسافر ہی نہیں تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمس تبریز جیسے مجذوب کا ان کی زندگی میں داخل ہونا گویا دیوانِ شمس تبریز اور مثنوی معنوی کو وجود میں لانے کا ایک خدائی اظہار تھا۔وہ نہ ہوتے تو مولانا سب کچھ ہوتے جیسا کہ وہ تھے ۔قرآن کو سینے میں سمونے والے حافظ ،فقہ و حدیث ،شریعت،طریقت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے۔اور استاد ایسے کہ چلتے چلتے بھی حکمت و دانائی کے موتی راستوں میں بکھیرتے جائیں پر شاعری کا تو کہیں دور دور تک سان و گمان تک نہ تھا۔
یقیناًوہ وقت کا منتخب لمحہ تھاجب قونیہ کی وہ عظیم صاحب علم ہستی جو اپنے آراستہ پیراستہ دیوان خانے میں شاہانہ کرّوفر کے انداز میں اپنے طالب علموں کے ساتھ درس و تدریس میں مگن رہتی تھی۔لمحے بھر میں ہی اُس پھٹے پرانے ملبوس میں وہ کہ جس کے گرد آلود پاؤں ننگے تھے ۔بالوں کی اُلجھی ہوئی لٹوں میں مٹی تھی۔چہرے پر دھول تھی کے دام گرفت میں آگئی۔ اُس مجذوب نے انہیں اُس مسند سے اٹھا کر ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جو راگ ورنگ، ناچ گانے اور موج و مستی والا تھا۔قونیہ کے لوگ پہلے حیرت زدہ ہوئے پھر کراہت اور نفرت کا اظہار کرنے لگے نہ صرف عام لوگ بلکہ عزیز رشتہ دار حتیٰ کہ سگی اولاد بھی۔
اب زندگی کا ایک بالکل نیا رُخ جو معاشرے کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ تھا سامنے آیا۔مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی مقصود خدا وندی تھا۔یہ شمس تبریز ہی تھے کہ جس نے اپنے مرید کو اسرارورموز اور طریقت کی تعلیم دی۔روحانیت کی گھمن گھیریوں میں ہر طرح اُلجھا کر اس کی منزلیں طے کروائیں۔عشق حقیقی کے آداب سکھائے۔قرب الٰہی سے آشنا کیا۔آزمائش کی کسوٹیوں پر پر کھا۔
ظاہر بین لوگ جن کی ذہنی سطح بہت آگے کی چیزیں نہیں دیکھتی ہیں۔وہ اِس تعلق کو سفلی سطح پردیکھنے لگے تھے۔جب کہ یہ سب خدائی منشاء کے تابع ہورہا تھا۔اس کی وضاحت ان دو واقعات سے ہوتی ہے جو شمس تبریز اور مولانا رومی کو پیش آئے۔
پہلا واقعہ اُس برگزیدہ شخصیت شمس تبریزی کے حوالے سے ہے کہ جس نے خدا کے حضور دُعا کی کہ اے پروردگارعالم تو نے مجھے مسند ولایت دی۔اب میں تیرے عطاکردہ علم کو کِسی ایسے انسان کو دینا چاہتا ہوں جسے تو پسند کرتا ہے۔یہ دعا قبول ہوئی اور غیب سے آواز آئی کہ ایسا شخص تجھے تیرے شہر میں نہیں قونیہ میں ملے گا۔تجھے اس کے پاس جانا ہوگا۔
اسی طرح مولانا روم کوبھی زمانوں پہلے ایک خواب میں ہی بشارت ہوئی کہ کوئی اُن سے کہتا ہے تم نے دینی اور دنیاوی علوم میں کمال حاصل کرلیا ۔تمہاری زندگی قابل تعریف ہے مگر تم معرفت اور طریقت کی منزل سے ناآشنا ہو۔تمہاری روحانی تربیت کیلئے ایک ایسا آدمی تمہارے پاس آئے گا جو معرفت میں کمال کے درجے کو پہنچا ہوا ہے اور ہمارا بہت پسندیدہ ہے۔نام شمس تبریزی ہے۔
بیدار ہونے کے بعد انہیں اطمینان قلب ہوا۔کیونکہ وہ خود بھی اس راستے کے مسافر بننے کے متمنی تھے۔فریدالدین عطار سے سرسری سی ملاقات اور ان کے “اسرارنامہ”نے ان کے اندر اِس جذبے کو ابھارا تھا مگر پھر درس و تدریس کی دنیا میں مصروفیت نے وہ خواب ایک طرح بھلا سا دیا تھا۔
اور جب وہ تاریخی ملاقات ہوئی ۔اس وقت ایک دنیا دار صاحب علم انسان اپنے کروّفر شاہانہ کے ساتھ ایک دلفریب ماحول میں تدریس میں محو تھا۔تبھی ایک مجذوب نے قریب آکرکتابوں کو چھوتے ہوئے کچھ پوچھا ۔آپ کو ایک خستہ حال انسان کا یوں آنا پسند نہ آیا۔رکھائی سے ۔۔۔۔۔۔۔”چیز یست کہ تونمی دانی”۔۔ (یہ وہ چیز ہے جسے تو نہیں جانتا)کہا اور اندر چلے گئے ۔
مجذوب نے کتابیں حوض کے پانی میں پھینک دیں۔واپس آکردیکھا اور ناراضگی کا اظہار کیا۔فقیر نے ہاتھ سے کتابیں نکال کر منڈیر پر رکھ دیں۔خشک کتابیں دیکھ مولانا نے حیرت بھرے انداز میں استفسار کیا۔مجذوب نے وہی جواب دہرایا۔چیز یست کہ تونمی دانی۔(یہ وہ چیز ہے جسے تو نہیں جانتا)۔
خواب یاد آیا!پوچھا۔شمس تبریزی ہیں آپ۔اثبات میں جواب دیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے کایا کلپ کی۔یہ شمس تھے جنہوں نے انہیں سخن کا شہنشاہ بنا دیا۔
یہ بھی خدائی منشا تھی کہ انہیں دنیاوی جاہ و حشمت سے نکال کر اُن میں عجز و فقرپیدا کیا جاتا اور ان کی ہستی کو عجز و فقر میں گوندھا جاتا۔
ایک دن وہ غائب ہوگئے۔یقیناًیہی وہ مقام تھا جو قدرت کے نزدیک منتہائے مقصود تھا۔اس جدا ئی نے اُن کے اندر وہ آگ بھڑکائی کہ فریادو نالہ شعروں میں ڈھل گیا ۔مولانا کی آفاقی شاعری کا آغاز ہوگیا تھا۔دل کا درد شعروں کی صورت ڈھلنے لگا۔ مولانا روم شاعر بن گئے۔انہوں نے خود اس کا اظہار کیا۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس و تبریزی نشد
مولوی یعنی میں ہر گز مولانا روم نہ بنتا اگر مجھے شمس تبریز کی غلامی نصیب نہ ہوتی۔
اب جب ہجر اور فراق کی آگ اندر جل اٹھی تھی ۔ضبط کا یارا نہ رہاتو زبان اِس جلن کو اُگلنے لگی۔
میں نے سنا ہے آپ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں
بخدا یہ سفر نہ کریں
آپ میرے ایک رقیب سے محبت کرنے والے ہیں
بخدا ایسا نہ کریں
آپ نے دنیا میں کبھی دُکھ ،تکلیف اور رنجش نہیں دیکھی
پھرآپ دل کو تکلیف دینے والا عمل کیوں کرتے ہیں۔ایسا نہ کریں،ایسا نہ کریں!!!!!!
تصوف کی اِس بلندی نے اُن میں عجز اور خاکساری پیدا کی کہ جلال والی کیفیت ہی نہ رہی۔گالیاں،کوسنے ،لعن طعن سب چیزیں ان کے لئیے بے معنی ہوگئیں۔
دراصل مولانا رومی کے اندر شاعرانہ جذبات کی جو حس قدرت کی طرف سے عنایت تھی وہ مخفی تھی ۔تبریز کی جدائی نے گویا ان سربند جذبات کا منہ کھول دیا اور لاوہ یوں پھٹ کر باہر آنے لگا کہ صدیاں گزر جانے پر بھی اِن اشعار کا کوئی بدل نہیں۔
ذرا دیکھیے اِن اشعار کو۔
اے دوستو تم جاؤ اور میرے محبوب کو لے کر آؤ
میرے بہانے بازمحبوب کو ساتھ لے کر آؤ
اگر وہ وعدہ کرے کہ وہ پھر کسی وقت آئے گا
تو اس کے حیلے بہانوں پر مت جانا!
یہ اشعار جن کی پور پور میں عشق مجازی کی جو لانیاں نظرآتی ہیں۔دراصل یہی عشق حقیقی کی حشر سامانیاں ہیں۔شاعر کی ابتدائی شاعری کا آغاز جس دلآویز رنگ میں سامنے آیا۔ اُس نے اُسے دنیا کی شاعری میں ایک منفرد انداز سے نمایاں کیا۔غز ل کی بنیاد ہی عشق و محبت پر اٹھائی گئی ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا کا ہر شعر جذبوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہے۔اپنے اندر معنویت لئیے،صوتی اعتبار سے نغمگی لئیے،حُسن خیال کی فراوانی لئیے اور فکر کی بلندی لئیے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے تغزل کو اوج کمال تک پہنچادیا۔
ذرا دیکھیے۔۔۔۔۔
ماخستگانیم و توی صد مرہم بیمار ما
مابس خرابیم و توی ھم از کرم معمار ما
ترجمہ: ہم تھک کر خستہ حال ہوگئے ہیں تو ہی ہماری بیماری کا علاج یا مرہم ہے
ہم شکستہ حال ہیں اور تو ہی ہمارا بنانے والا ہے
مولانا روم کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے۔1207میں بلخ جیسی سرزمین جو علم و دانش،فکر و فن اور تہذیب و تمدن کا مرکز تھی۔جہاں خود ان کا خاندان ان کے والد بہاؤ الدین ولدعلم و دانائی ،زہد و پارسائی میں یکتا پورے علاقے میں معزز و محترم شمار ہوتے تھے ۔درس و تدریس جن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔وہ علم کا دریا تھے۔ اُن سے ملنے کیلئے دور درازسے آنے والے بھانت بھانت کے لوگوں کا آنا ،اپنے مسائل پر راہنمائی چاہنا،کم سنی میں ہی سمرقند جیسے تاریخی شہر میں جانا اور وہاں قیام کرنا ،اس قیا م میں اُنکا وقت صاحب علم لوگوں کے ساتھ ہی نہیں گزارا بلکہ خوازم شاہ کو شہر تاراج کرتے دیکھنا، لوگوں کا خوف و ہراس، واپسی کا سفر اور پھر اپنے شہر کے دگر گوں حالات ۔ایک بار پھر ہجرت۔نیثا پور، بغدا د،شام، مکہ ۔اِن شہروں میں قیام کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقتدر ہستیوں سے ملاقاتیں ،باتیں بحث مباحثے یہ سب وہ تجربات تھے جن سے وہ اوائل عمری سے آشنا ہوئے۔یہ اُن کی یادوں میں محفوظ ہوئے اورا نہوں نے ان کی فکر کو جلادی۔ یہ چیزیں ان کی شاعری کا حصّہ بنیں تو لازمی بات ہے اظہار میں طغیانی جیسی شدت کا آنا عین فطری تھا۔
قونیہ آنا بھی زندگی کا ایک سنگ میل تھا۔
سلجوقی سلطنت کا پایہ تخت قونیہ جس نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔والد کی وفات کے بعد آپ نے علم بانٹنے کے عظیم سلسلے کو آگے بڑھایا۔تاہم اُس وقت تک مولانا رومی شاہانہ انداز زندگی کے خوگر تھے۔طلائی اور نقرئی تاروں سے کاڑھا گیا لباس پہنتے،بدن کو خوشبو میں بساتے ،اونچی مسند پر بیٹھتے اور ماحول میں کروّ فرکا رچاؤ ہوتا۔وہ وقت کے مفتی تھے۔شیخ تھے۔امام تھے۔
شمس تبریز جیسے مجذوب کاآپ کی زندگی میں آنا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔یقیناًخدا اُن سے وہ عظیم کام لینا چاہتا تھا جو مثنوی معنوی کی صورت میں ظاہرہوا۔ اُن کی قربت نے اُن میں صوفیانہ فکر کا وہ رنگ بھرا کہ وہ سب کروّ فر رخصت ہوئے۔شب و روز رقص میں رہنے لگے۔دنیا حیران تھی اور نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے باطنی دنیا کے اوج کمال کی معراج پالی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ویوان شمس تبریز غزلوں کا وہ خوبصورت مرقع ہے جسے فارسی ادب کا نگینہ کہنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے جو کہا وہ گویا ان کے اندر کی کہیں گہرائیوں سے اٹھ کر سامنے آیا۔اس میں تصوف کا ایسا کونسا پہلو ہے جو زیر مشق نہیں آیا۔
حسن و عشق کے موضوع کو جیسی پذیرائی مولانا کے کلام نے دی ہے ۔اُس کی مثال ملنی بے حد مشکل ہے۔۔
اے یار ما دلدار ما ،اے عالم اسرار ما
اے یوسف دیدار ما اے رونق بازار ما
ایک اور جگہ کہتے ہیں۔
اے شاد کہ ماہستم اندر غم تو جاناں
ہم محرمِ عشق تو ہم محرم توجاناں
ترجمہ: میں اس بات پر خوش ہوں کہ تیرے غم میں مبتلا ہوں
میں تیرے عشق کا رازدار ہوں اور میں اے میرے محبوب تیرا بھی راز دار ہوں!!!
محبت ،اُخوّت ،امن وبھائی چارہ ،صبر برداشت ان کی بنیادی تعلیمات تھیں۔اُن کی ذات کے گرد سنہرا ہالہ بننے اور ان کی شاعری کو زمانوں کیلئے اثاثہ بنادینے والی۔
وہ کہتے ہیں محبت کرنے والے بن جاؤ،اپنی ذات کی نفی کردو،دل کو تخلیق کرنے والے سے بھرلو،بس یہی اُس تک پہنچے کا مختصر ترین راستہ ہے۔جس کسی نے اپنا دل خدا کو سونپ دیا۔حقیقت میں اُس نے اپنی ذات کی مہار اُس کے ہاتھوں میں پکڑا دی۔ ان کی باتوں میں، اُن کی مثنوی معنوی میں زندگی جو بذات خود ایک متنوع اور لامحدود موضوع ہے۔اُس کا ہر ہر پہلو نہ صرف بولا بلکہ نمایاں ہوا۔عشق حقیقی کی رومانیت نے شعروں میں گُھل کر ان کا حُسن بڑھایا۔
توبرائے وصل کر دن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
خدا سے اٹوٹ تعلق کی شیرینی نے لوگوں میں مٹھاس بانٹی۔وہ خدا کی آواز بنے اور انہوں نے تلاش کرنے والوں کو خوبصورتی تحفے میں دی۔دل کی خوبصورتی،سچ کی خوبصورتی،انسانیت کی خوبصورتی۔
لڑکے اپنے اپنے مدار کے اندر بے خودی کی کیفیت میں مبتلا گھوم رہے تھے،گھوم رہے تھے اور لگتا تھا جیسے وہ ایسے ہی گھومتے گھومتے فضا میں تحلیل ہوجائیں گے اور ساتھ میں ہم لوگ بھی ۔
انہوں نے دل مسخر کرنے کو کہا۔انسان تو ساری تخلیق میں سب سے حسین اور قابل فخر ہے۔وہ کہتے ہیں۔اگر تم سمندر سے ایک جگ پانی کا بھرتے ہو تو جگ کتنا پانی اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔ایک دن کے گزارے کا۔تو جیسے سمندر جگ کی گنجائش کے مطابق اُسے بھرتا ہے تو ہماری رسائی بھی اوپر والے تک ہماری استعداد کے مطابق ہی ہے۔
رقص میں بے خودی اور مسلسل گھومنا بھی اُس حقیقت کی عکاسی ہے کہ جیسے چاند اور سیارے اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں۔اسی طرح چکروں میں خدائی تعلق کے احساس کا عنصر کارفرما ہے۔
درویشوں کا نگاہیں اور گردن اٹھا کر اُوپر دیکھنا گویا خدا کی کائنات اور اُس کی دنیاؤں کی عظمتوں اور بڑائیوں کا اعتراف ہے۔رقص کے چکر وں میں تیزی اور والہانہ پن اُس خدائے واحد کی لامتناہی کائنات کے درمیان اس کی ہستی میں خود کو گم کردینے،مٹا دینے اور محبت کی معراج کو چھو لینے کا تصور ہے۔
اور پھر قرآ ن کی ایک سورت کے ساتھ یہ رقص ختم ہوجاتا ہے۔
ہم ایک ماورائی دنیا میں سانس لے رہی تھیں۔وہ دنیا جو زاہدوں اور عابدوں کی ہے۔ خدا کی پسندیدہ ہستیوں کی ہے جس تک ہم گنہگاروں کی رسائی نہیں۔مگر سچ تو یہ ہے کہ روحانی سفر میں ہستی کو فنا کردینا ہی منتہائے مقصود ہے۔اُن سب کیلئے جو محبت کے راستے کے راہی بنتے ہیں اور جو اپنے اندر خدا کی تلاش کرتے ہیں۔خدا بھی انہیں نوازتا ہے۔آج دنیا کی کم و بیش ہر بڑی زبان میں مثنوی معنوی ترجمہ ہوچکی ہے۔اِس ترجمے نے لوگوں کو روشنی دکھائی ہے۔اس کے بندوں کو بھٹکنے سے بچایا ہے۔انہوں نے کہا ہے ۔
ایں جلالت دردلالت صادق است
جملہ ادراکات پس اوسابق است
ترجمہ: خدا کی بڑائی اور شان اس کے ہونے کی سچی گواہی ہے
ہر شعوراور ادراک پیچھے رہ جاتا ہے!!
ہم بے شک قونیہ نہ جاسکے مگر یہ وقت ہم نے مولانا رومی کے ساتھ گزارا۔
واپسی میں جب میڑو پر چڑھے تو ایک دلچسپ سا منظر دیکھنے کو ملا۔ایک نیا نویلا جوڑا اگلے سٹاپ سے سوار ہوا۔کیسی معصوم سی دُلہن اور دلہا بھی ایسا ہی۔ہمیں تو دیکھتے ہی کھد بُد ہونے لگی۔جوڑا شادی کے روایتی لباس میں ملبوس تھا۔کمپارٹمنٹ میں خاصا رش تھا۔ہم کھڑے تھے۔لڑکی کو میں نے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کرلیا۔انگریزی تو بڑی بات اُسے تو اپنی زبان میں بولنے کی ہچکچاہٹ تھی۔
اناطولیہ کے ایک دورافتادہ قصبے سے اپنے عزیزوں کے پاس آئی تھی۔ساتھ جو رشتہ دار عورتیں تھیں وہ کسی سٹوڈیو سے ان کی تصویر اُتروا کر آئی تھیں۔انگریزی میں وہ بھی کوری تھیں۔تاہم اُن میں سے ایک تھوڑا سا دال دلیہ کرلیتی تھی۔
جھلمل جھلمل کرتا لباس جو ایک فراک اور تنگ پائینچوں کی پُھولی ہوئی بیگی نماشلوار کی صورت میں تھا۔سر پر ریشمی سکارف سا۔معلوم ہوا تھا کہ ترکی میں شادی کی تقریب پلاؤ زردے کی تقریب کہلاتی ہے۔دیہی علاقوں کی شادی کا دیکھنے سے تعلق ہے۔روایتی لباس،ناچ گانے اور روایتی کھانے جن میں ترکی پلاؤ کے ساتھ ساتھ زعفران ڈلا زردہ اس تقریب کی خاص ڈش ہے۔
ہمارا اسٹیشن آگیاتھا۔اُترنا پڑا۔جی چاہتا تھا اُس من موہنی سی لڑکی کو تھوڑا اور دیکھتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں