اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔تفصیلات کے مطابق ،بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی سماعت کے دوران فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دیئے گئے۔سابق وزیراعظم کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلے حفوظ کرلئے۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد پراسیکیوٹر نیب کے دلائل جاری ہیں۔خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جب کہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔خواجہ حارث نے نواز شریف کی ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کیلئے تھی، وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میرا مؤقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھاجج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لیں تو اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20 اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نا کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں، اکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے، 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کئے۔خواجہ حارث نے کہا 28 جولائی کے اسی 5 رکنی بینچ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواست دی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں