گزشتہ ہفتے دو روزہ سیشن برائے نیشنل وولینٹیئر ریویو میں شرکت کا موقع ملا۔ منسٹری آف پلاننگ ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کے تحت ایس ڈی جیز(SDG’s) کے اہداف، چیلنجزاور کارناموں (achievements) پر روشنی ڈالی گئی۔ممبر منسٹری آف پلاننگ کمیشن ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارمز اور ایس ڈی جیز کے چیف جناب شاہد نعیم کو جاتا ہے۔ایس ڈی جیز کے حوالے سے کچھ چیدہ چید ہ نقاط، ذاتی رائے اورمعاملات کی سنگینی کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے۔ایس ڈی جیز کا حصول یواین اور منسٹری آف پلاننگ کی دیرینہ خواہش ہے۔وی این آر میٹنگ کے شرکاء میں ایچ ای سی،یونیسکو، نادرا، سی ڈی اے، وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت خارجہ امور، ہمقدم، وولڈ بینک،الخدمت فاؤنڈیشن ایس او ایس ویلج، اسلامک ریلیف،ریڈ کریسنٹ اور ہمدرد یونیورسٹی شامل تھے۔الخدمت کی طرف سے طارق جنجوعہ (سابق سیکرٹری) اورراقم الحروف نے فورم کو بتایا کہ الخدمت سات پروگراموں میں کام کررہی ہے جس میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ،کفالت یتامی، صحت، صاف پانی، کمیونٹی سروسز، تعلیم اور قرضہ حسنہ شامل ہیں۔
وی این آر میٹنگ میں قابل ذکر موضوعات یہ ہیں۔میٹرنل ہیلتھ، ایچ آئی وی، ملیریا، ہیپاٹائٹس، کولرا، ٹائفائیڈ،اربن و رورل سلمز (شہری و دیہی کچی بستیاں)،فوڈ آرڈیننس1960، فوڈ ہینڈلر کے لیے ٹریننگ اور سرٹیفیکیٹ، پبلک ہیلتھ فورم، ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ سروس، ڈی ایچ او آفس، ہیلتھ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم، فارمیسی انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم، انفارمیشن لاجسٹک مینجمنٹ سسٹم، ہیلتھ ایکوٹی ماڈل فار ایمپلائز، ایم او یو ز اینڈ پارٹنر شپس، ریسر چ شیئرنگ اینڈ کوارڈینشن، پروٹوکولز، پالیسیز، فوڈ انسپکٹر، انسٹی ٹیوشنلائیزڈفریم ورک، بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی، ڈیٹا سیکورٹی آف بلڈ سمپل، ڈرگ ایڈکشن، واٹر ویسٹ مینجمنٹ،میونسپل ویٹ، گورننس اینڈ آپریشن، ڈبل اسٹینڈڑ آف ایجوکیشن، سکول کے بچوں کے بھاری بھرکم بستے، ہائی لیول پولیٹکل فورم، ای سی ای ارلی چائلڈ ایجوکیشن اور الخدمت فاؤنڈیشن کے ماڈل سٹڈی سنٹرزاور چائلڈ کیئر ڈیویلپمنٹ چائلڈ پروٹیکشن سنٹرز شامل ہیں۔
ایس ڈی جیزکے مندرجہ ذیل 17مقاصد ہیں۔ (1)غربت کا خاتمہ(2)خوراک کو ضائع ہونے سے بچائیں (3)اچھی صحت (4) کمیونٹی کو معیاری تعلیم دیں (5)خوشحال اور پرامن معاشرے کے لیے مردو خواتین کو مساوی حقوق دیں (6)صاف پانی دہلیز (door step)پر مہیا کریں (7)انرجی (8) لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیجئے اور معاشی شرح نمو سے لوگوں کو باوقار کام کے مواقع مہیا کریں (9)انڈسٹری اور انفراسٹریکچر سے جدت اور نئے تعمیری ڈیزائن کے مواقع پیدا کریں (10) غیر مساویانہ رویہ جڑ سے اکھاڑ باہر پھینکیں (11) سسٹین ایبل شہر اور معاشرے (یعنی اپنے کام کے لیے موٹر سائیکل، پیدل اور سرکاری گاڑی استعمال کریں تاکہ کم سے کم فضائی آلودگی ہو (12) پراڈکٹس کی ری سائیکلینگ کر کے قابل استعمال بنائیں (13)موسمی تغیرات climate change کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی (14)انسانی زندگی اور آبی حیات کی بقاء کے یے سمندر میں پلاسٹک بیگ نہ پھینکیں (15)انسانی زندگی کی بقاء و سلامتی کے لیے جنگلات اور پودے اگائیں (16)انصاف، امن اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنا حق رائے دہی کا استعمال(17) ایس ڈی جیز کے باہمی حصول کے لیے پارٹنر شپس کریں تاکہ Two way processسے معاشرے میں جلدی تبدیلیاں رونما ہوں۔
ڈی جی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز ڈاکٹر حسن نے بتایا کہا کہ اسلام آباد انتظامی حوالے سے تین administrative units سی ڈی اے، چیف کمشنر آفس (CCO) اور اسلام آباد کیپٹل ٹیراٹری میں بٹا ہونے کی وجہ سے کام میں مشکلات ہیں ہے۔راقم کی رائے میں ایس ڈی جیز کے حصول میں تین بڑی رکاوٹیں Barriers ہیں۔ گورنینس،طاقتور سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا اداروں میں بے وجہ اثر و رسوخ استعمال کر کے ان کے آپریشنل اورتکنیکی امورمیں مداخلت کرنا اور انہیں سفارشی کلچر اختیار کرنے کی جانب مجبور کرنا۔ اسکی بہت سی موجودہ دورحکومت کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نہ ہونا جس کی وجہ سے سرکاری مشینری ایک طرف جہاں سست روی اور کام چوری کا شکار نظر آتی ہے وہاں پارٹنرشپ اور کمیونٹی سے باہمی روابط ہونے نہ ہونے کی وجہ سے ایس ڈی جیز گولز کے حصول میں کئی گنا اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر Humanitarian Grounds پر کرنے والے فلاحی اداروں کو وقعت نہیں دی جاتی اور اس کے مقابلے میں ہائی فائی سٹریکچر رکھنے والی تنظیموں کو نہ صرف مذاکرات کے لیے بلایا جاتا ہے بلکہ انہیں بیرونی و اندرونی فنڈز اور اعزار و اکرامات سے نوازا جاتا ہے حالانکہ ان تنظیموں کا انتظامی خرچہ اور اللے تللے بسا اوقات ساٹھ سے ستر فیصد تک پہنچ جاتے ہیں جو کہ ڈونر ایجنسیزاور انفرادی سپانسرز کے ساتھ سراسر زیادتی اورناقابل قبول جرم ہے۔ آئیے!اس عزم کیساتھ کہ خدمت انسانی کے میدان میں سرکاری ادارے پرائیویٹ اداروں کی مدد کیساتھ بے سہار ا اور سفید پوش لوگوں کی دہلیز پر پہنچ کر اپنا حق اداکریں گے۔ تنظیمیں، این جی اوز اور دوسری سول سوسائیٹیزبھی اس بات کا اعادہ کریں کہ اپنی اپنی انرجیز، سینرجیز، تجربات، معلومات (Fact & Figures)،پائیدار ترقی کے مکمل اہداف، منصوبے اور لائحہ عمل ایک دوسرے سے میل وغیرہ پر شیئر کریں گے اور مفلوق الحال عوام کی ہر ممکن داد رسی کی کوشش کریں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں