• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مڈ ٹرم انتخابات ؟ ۔۔۔ قوم پر رحم کیجیے ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

مڈ ٹرم انتخابات ؟ ۔۔۔ قوم پر رحم کیجیے ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

حالات کی ستم ظریفی دیکھیے، پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو ابھی چار ماہ نہیں ہوئے اور اہل سیاست نے کمال بے نیازی سے مڈ ٹرم الیکشن پر غور فرمانا شروع کر دیا ہے۔ الیکشن نہ ہوئے گویا بچوں کا کوئی سستا سا کھلونا ہو گیا جب جی چاہا خرید لیا ۔ کیا اہل سیاست کو کچھ معلوم ہے عام انتخابات اس غریب قوم کو کتنے میں پڑتے ہیں؟

حالیہ انتخابات ہماری تاریخ کے مہنگے ترین انتخاب تھے۔ آپ الیکشن کمیشن کے بجٹ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ الیکشن کا انعقاد بچوں کا کھیل نہیں ، عوام کی رگوں سے گویا لہو نچوڑا جاتا ہے تب جا کر الیکشن ہوتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ 2008 میں الیکشن کمیشن کا بجٹ 1.8 (ایک اعشاریہ آٹھ) ارب روپے تھا ۔ 2013 کے انتخابات میں یہ بڑھ کر 4.6 (چار اعشاریہ چھ) ارب روپے ہو گیا ۔ لیکن 2018 کے الیکشن کے اخراجات تو بہت ہی غیر معمولی تھے ۔ ان انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کا بجٹ 21 بلین تھا ۔ اب مد ٹرم انتخابات ہوئے تومہنگائی کی تازہ لہر کے پیش نظرکچھ بعید نہیں کہ الیکشن کمیشن کا یہ بجٹ 40 ارب تک جا پہنچے۔

سرکاری اخراجات کے ساتھ اگر نجی سطح پر کیے گئے اخراجات کو بھی شا مل کر لیا جائے تو 2018 کے انتخابات کا مجموعی خرچ قریبا 440 ارب روپے تھا ۔ کیا ایک غریب قوم کے 440 ارب خرچ کر کے یہ انتخابات اس لیے کروائے گئے کہ محض تین ماہ کے بعد جناب وزیر اعظم کہہ دیں کہ مڈ ٹرم الیکشن کا امکان موجود ہے اور جناب آصف زرداری مڈ ٹرم انتخابات کی ’’ تجویز‘‘ قبول کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے لاڑکانہ میں پارٹی کا اجلاس بلا لیں ؟عجب نہیں کہ مڈ ٹرم ہوئے تو یہ اخراجات بڑھ کر 600 ارب تک پہنچ جائیں۔

اب ذرا اپنی حالت پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈیم بنانے کے لیے پیسے نہیں ۔ عطیات اکٹھا کرنے کی ایک غیر معمولی مہم چلائی گئی ۔ ابھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھی تو معلوم ہوا کہ اب تک 8 ارب 73 کروڑ25 لاکھ 2 ہزار 43 روپے اکٹھے ہو سکے ہیں ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے جو ملک اس معاشی بحران کا شکار ہو کہ اس کے پاس ڈیم بنانے کے لیے پیسے نہ ہوں اور مہینوں کی محنت سے وہ ڈیم کے لیے صرف پونے نو ارب روپے اکٹھے کر پائے، کیا اسے مڈ ٹرم انتخابات کے جہنم میں تیس چالیس ارب جھونکنے چاہییں؟

مڈ ٹرم انتخابات پر قومی خزانے سے چالیس ارب روپے برباد کرنے سے بہتر نہیں یہ رقم ڈیم فنڈ میں جمع کروا دی جائے اور قومی اسمبلی کے نہ بکنے والے ، نہ جھکنے والے ، آپ کے ووٹ کے جائز حقدار 342 عدد مفکرین کرام کے بغیر ہی صرف سینیٹ کی مدد سے پانچ سال گزار لیے جائیں ؟ اس کارخیر کے نتیجے میں کتنے ہی ارب روپے کی مزید بچت بھی ہو جائے گی ۔ یہ رقم بھی ڈیم فند میں دی جا سکتی ہے۔ حساس اور درد دل ہو تو ایسے کسی ایڈ ونچر کے تصور ہی سے بندے کو کانپ جانا چاہیے۔ لیکن یہاں مد ٹرم انتخابات کا آپشن زیر بحث ہے۔

اس تناظر میں عمران خان کایہ موقف بھی درست نہیں کہ کپتان کی سٹریٹجی کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے۔ کپتان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب چار اوورز کا کھیل ہو چکا ہو تو کپتان یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ نیا ٹاس کرتے ہیں اور کھیل نئے سرے سے شروع کرتے ہیں ۔ اس وقت کپتان کی سٹریٹجی یہی ہوتی ہے کہ جو اوور باقی رہ گئے ہیں ان میں بہترین پرفارمنس کیسے دی جائے ۔ عوام نے اپنا کام کر دیا اور تحریک انصاف کو ووٹ دے کر حکومت میں لائے۔ اب دوبارہ سے عوام کو امتحان میں ڈالنا حکمت نہیں۔ حکمت یہ ہے کہ دستیاب حالات میں بہترین کارکردگی دکھائی جائے۔

اونٹ کے ساتھ کوہان اور جمہوری اقتدار کے ساتھ اپوزیشن ضرور ہوتی ہے ۔ اہل اقتدار چاہیں تو اس سے بد مزہ ہوتے رہیں اور چاہیں تو اسے ایک ’ ناگزیر برائی‘ کے طور پر قبول کر لیں کہ جمہوری بندو بست میں جملہ قباحتوں کے باوجود اپوزیشن ہی چیک اینڈ بیلنس کی ضمانت ہواکرتی ہے ۔ اپوزیشن کا وجو د بظاہر کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے ، ایک جمہوری معاشرے میں وہ باعث خیر ہوتا ہے۔ یہ خواہش کرنا کہ مڈ ٹرم ہو جائیں اور ایسا کامل اقتدار مل جائے کہ اپوزیشن سر درد بن ہی نہ سکے دستیاب معاشی حالات میں کوئی قابل تحسین رویہ نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بار بھی ووٹر سینکڑوں میل کا سفر کر کے عمران خان کو ووٹ دینے گاؤں جائیں ۔

جمہوریت مثالیت پسندی کا نام نہیں کہ آپ اسی سوچ کے اسیر ہو کر رہ جائیں کہ دو تہائی اکثریت ملے گی تبھی آپ اچھی حکومت کر سکیں گے۔ جمہوریت اصل میں بند گلی سے راستے تلاش کرنے اور نا ممکنات میں سے چند امکانات پیدا کرنے کا نام ہے۔ اپوزیشن بعض معاملات میں بے شک حکومت کی راہ کھوٹی کر سکتی ہے اور پارلیمان میں حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے لیکن وہ اچھی حکمرانی کی راہ میں ہر گز رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ صحت ، تعلیم ، بنیادی سہولیات زندگی سمیت ہر شعبے میں مسائل کا انبار لگا ہے۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنا چاہے تو کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا ۔ حکومت اگر سمجھے تو کرنے کا اصل کام ہی یہی ہے۔

ہماری سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ عام آدمی سے بے نیاز ہے اور یہ عام آدمی کبھی سیاست کا موضوع نہیں بن سکا ۔ اس کی محرومیوں اور اس کے مسائل کبھی سیاست کا مرکز و محور نہیں بن پائے۔ عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور قیادت اس سب سے بے نیاز ہے۔ زرداری ہوں ، نواز شریف ہوں ، فضل الرحمن ہوں ، اچکزئی اور اسفند یار ولی ہوں یا عمران خان، ان میں سے کسی کو ان مسائل کا علم ہی نہیں جن سے ایک عام آدمی ہر روز گزرتا ہے ۔ یہ سب آسودہ لوگ ہیں ۔ انہیں کیا معلوم گھر میں ایک بیمار پڑا ہو تو زندگی کتنی کٹھن ہو جاتی ہے۔ یہ کیا جانیں بچوں کی تعلیم کے اخراجات کس بلا کا نام ہے۔ انہیں کیا خبر مزدور کی دیہاڑی نہ لگے تو دن کیسے گزرتا ہے۔ انہیں کچھ خبر نہیں فاقوں کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ لوگ پیاس سے مر رہے ہیں اور سیاسی قیادت دریا کے کنارے بیٹھی ہے، اسے کچھ علم نہیں پیاس کی شدت کیا ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چالیس ارب روپے کے مڈ ٹرم ؟ کیا عمران خان کو معلوم ہے چالیس ارب روپے میں کتنے ہسپتال بن سکتے ہیں اور کتنے بچوں کی دماغی نشوو نما بہتر ہو سکتی ہے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply