آج کل کے بچے۔۔۔۔۔حناشاہد

بڑی بوڑھیاں جب بھی آج کل کے بچوں کو نت نئ شرارتیں کرتے دیکھتی ہیں تو یہ جملہ ان کا پسندیدہ ہوتا ہے :
“” جی ہمارے زمانے میں تو ایسا نہ ہوتا تھا “آجکل”کے تو بچے گھر سر پہ اٹھاۓ رکھتے ہیں ”
پھر جو قصیدہ پڑھنا شروع کریں گی اپنے زمانے کا تو بات بلآخر اپنی تعریفوں پہ آکے ختم ہوگی ،جبکہ درمیان میں بچے تو بچے بلکہ نئے دور کے بچوں کی اماں بھی خوب گھسیٹی جائیں گی۔لیکن اگر دیکھا جاۓ تو کہتیں کچھ غلط بھی نہیں ۔ابھی پرسوں کی بات ہے کہ میں گھر کےمعمول کے کام کاج جلدی جلدی نبٹانے میں  مصروف تھی۔ کہ ایکدم “ٹھاک “”کی آواز نے قدم زنجیر کر لیے   ،دل دہل گیا ،بھاگ کے اپنی تین سالہ بیٹی کو سنبھالا تو آگے کا منظر غش کھانے کیلئے   کافی تھا ۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کے بیٹی کو اٹھایا جو نجانے کب کچن میں داخل ہوئی اور اب شیشے کا ایک گلاس نیچے فرش پہ” کرچی کرچی” پڑا تھاجو کہ یقیناً  اس کے مطلوبہ ہدف کے درمیان میں آیا تھا اور چھری اس کے ہاتھ میں تھی۔
میں نے زبردستی چھین کے کمر پیچھے چھپائی تو   “بھاں  بھاں ” شروع کردیا۔مجھے بھی عین موقع پر اماں کی ایک چالاکی یاد آئی اور جھٹ بولی :
بیٹا میرے پاس تو نہیں ہے وہ تو کوا لے گیا میں نے اشارہ بھی کیا۔۔۔۔۔
” مما میں پادل (پاگل) ہوں کیا آپ نے پیچھے چھپا رکھی ہے۔۔دیں مجھے ؟”
پھر سے” بھاں  بھاں” شروع ۔۔۔۔۔
میں دھک سے رہ گئی  اور یہ کہنے پہ مجبور بھی کہ “اف یہ آج کل کے بچے”ـ؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے ـ
“بچپن میں جب بھی کسی ایسی غلط چیز کیلئے   ضد کرتے تو اماں جھٹ سے  چیز چھین کے کمر کے  پیچھے چھپا لیتی اور نہایت ہوشیاری سے دیوار پار اشارہ کر کے کہتیں وہ تو کوا لے گیا۔اور ہم بھی معصوم ایسے کہ رونا بند کر کے  کوے کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگتے پر ماں کو کبھی غلط نہ کہا:
“وقت اتنی جلدی کیسے بدل گیا؟”۔۔۔
نئے دور میں کچھ تو نیا ہوا ہی ہوگا جو بچوں کا ماؤں پر سے بھی اعتماد اٹھ گیا ـ اسی سوچ میں تھی کہ سامنے والی آپا کے گھر سے اسکے پانچ سالہ احد کی دلسوز چیخوں اور رونے کی آواز آرہی تھی ،فطری پریشانی کے باعث دیوار سے تھوڑا جھانکا تو منظر واضح ہوا احد جوغالباً  ٹھوکر لگنے سے گرا تھا اورشاید اسکے گھٹنے پہ رگڑ آئی تھی ،وہیں صحن میں لیٹے وہ فل ساؤنڈ میں رو رہا تھا ،اور صدمہ یہ کہ آپا ساتھ ہی چارپائی پہ بیٹھی موبائل ہاتھ میں پکڑے انگلیاں اوپر نیچے چلا رہی تھیں ،بیٹے کی آواز سن کے تھوڑا خلل ضرور پڑا لیکن جھٹ پٹ اس پہ بھی قابو پالیا گیا۔۔۔۔
“اوہ “چوٹ لگ گئی  میرے شہزادے کو۔۔۔ ادھر آؤ میرے پاس یہ دیکھو” یہ کارٹون۔۔۔واؤ کتنے فنی ہیں ناں؟؟ ”
اور احد پھرتی سے اٹھ کر ماں کے ہاتھ سے موبائل لے کہ بیٹھ گیا۔درد اور رونا منٹوں میں غائب ،
ہاہ! میں  حیرت میں منہ کھولے کھڑی اور آنکھوں کے آگے ہی وہ منظر گھوم گیا ،جب بچپن میں گر جایا کرتے اور وہیں زمین پہ بیٹھ کے رونا شروع ہوجاتے تو اماں “بھاگ “کے آتیں۔
“ہاۓ ربا “۔۔دونوں ہاتھ سینے پہ دھرے۔۔۔”ہاۓ “میں مر جاواں ،بسم اللہ ،ماں صدقے اٹھ میرا پت ویکھ کیڑی (چیونٹی )دا آٹا ڈھل گیا”۔۔
اور ہم جھٹ پٹ اٹھ  کے اپنا درد بھولے ،چیونٹی کے غم میں غمگین نظر آنے لگتے۔اب اللہ جانے اس مشہور ومعروف محاورے کا مطلب کیا تھا؟ مگر وہ ان پڑھ مائیں انجانے میں بھی ہمیں احساس کرنا سکھا دیتیں۔کہ ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سے بڑا سمجھنے لگتے پھر خواہ وہ ننھی سی” چیونٹی “ہی کیوں نہ ہوتی۔اور تصور ہی تصور میں چیونٹی آٹے کی بوری پہ بیٹھی روتی نظر آتی۔
“دل بے چین ہوجاتا ، فکرمندی سوانیزے پہ پہنچ جاتی ”
مگر۔۔۔۔۔۔آج کی اکثر پڑھی لکھی مائیں جن کے پاس علم تو ہر طرح کا ہے مگر عمل کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا ،مصروفیت ہی اتنی ہوتی ہے ، موبائل فون،ٹی وی ،ڈرامے، فلمیں ،مارننگ شو اور سب سے محترم فیس بک صاحبہ ان کو بھی تو ٹائم دینا ہوتا ہے۔۔۔اب بچے کے  گرنے پہ “بسم اللہ” کہہ کے  اٹھانے کا کیا جواز ہے جب وڈیو گیم کارٹونز ہر مسئلے کا حل ہیں تو؟
اب بتائیں کیا کیا جاۓ؟ پھر کہا جاتا ہے کہ افف یہ ” آج کل کے بچے “۔
ارے !بچے تو وہی کرتے ہیں جو بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں  ،پھر بچوں کی “نانیوں” دادیوں” کا غم تو بجا ہوا نا؟
لیکن بات صرف یہ ہے کہ جانتا ہر کوئی ہے پر سچ سننا اور اسے ماننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔جو وقت سے پہلے سنبھل جاتے ہیں وہ تباہ ہونے سے بچالیے جاتے ہیں،اور جو خود ہی” آبیل مجھے مار والا” رویہ رکھیں تو ان کا پھر “اللہ بیلی”۔۔۔ـ
مجھے آج پچھلے سال گرمیوں کا وہ دن بڑی شدت سے یاد آرہا ہے جب بڑی بہن اپنے دو عدد بہادر اور جرات مند سپوتوں سمیت اماں کے گھر تشریف لائی ہوئی تھیں۔
ہوا کچھ یوں کہ ہم چاروں بہنیں اپنا فیورٹ ڈرامہ دیکھنے میں حد سے زیادہ ہی مگن تھیں۔ ساتھ ساتھ تبصرے بھی بلند آواز سے جاری تھے،کہ ایک فلک شگاف چیخ  نے درمیان میں خلل ڈالا۔۔۔
ہمیں بالکل بھی کوئی غلط فہمی نہ ہوئی کیونکہ وہ آواز یقینا ً اماں ہی کی تھی۔
بھاگ کے باہر نکلے ، اماں کی شعلہ برساتی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا ۔۔۔”دھت تیرے کی !آپا کا بڑا سپوت صحن کے بیچوں بیچ کھڑی پانی والی موٹر پہ بیٹھا مختلف ساز بنا کے گاڑی چلا رہا تھا۔صد شکر کہ موٹر بند تھی ورنہ ؟
خیر ہم سب کی سب اماں کے عتاب کا شدید ترین نشانہ بنی ہوئیں تھیں ۔
“ارے حد ہوگئی  اس کلموہے  ٹی وی کو تو میں آج ہی دفنادوں گی ۔۔نہ کام نہ کاج ،نہ بچوں کی ہوش۔ارے ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا ۔۔ اور آج کل؟؟
“اماں! آپ کے زمانے میں نہ ٹی وی ہوتا نہ فریج نہ موٹر ۔”
اس سے پہلے کہ اماں” آجکل “کا نغمہ شروع کرتیں ۔چھوٹی بہن بول پڑی اور ہم سب اس کی طرف” داد طلب” نظروں سے تو کیا “دعاۓ خیر “کی نیت سے دیکھنے لگے،
“آہ بیچاری!”
“پھر جو ہوا وہ اماں اور چھوٹی بہن کا آپس کا معاملہ ہے ہمیں اس سے کیا؟
لیکن اس کے بعد گھر میں ٹی وی نہ چلا۔ کچھ دن تو دل خوب مچلا لیکن پھر یقین مانیے عادت سی ہو گئی  ،وقت ہی وقت ہوتا، اکٹھے بیٹھ کے کھیلتےاورگپ شپ لگاتے۔گویا یہ ان پڑھ عظیم مائیں اب بھی ہمیں بہت کچھ سیکھا دیتی ہیں اگرچہ ہم خود کو اعلی تعلیم یافتہ اور ماڈرن سمجھتے ہیں اور جسےہم جیسے لبرازم کہتے ہیں انہیں یہ جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتیں۔
لیکن ٹھہرئیے !
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے
اب یہ ہماری اعلی ظرفی کہ ہم نے پرانے زمانے کی خوبصورت حقیقتوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔۔۔۔
“پر ہم بھی کسی سے کم نہیں ”
دو دن بعد بیٹی کی سالگرہ ہے ،اہل خانہ کی ساری بچہ پارٹی پرجوش دیکھائی دے رہی ہے ،
پر حسب معمول ہر بار کی طرح اس بار بھی گڑیا کی دادی ماں ناک منہ چڑھاۓ تن فن کرتی پھر رہی ہیں۔
“ہونہہ ہمارے زمانے میں تو ایسے چونچلے نہ ہوتے تھے ہم نے بھی بچے پالے ہیں ،آجکل کے زمانے کے تو نت نئے   فیشن” بلتھ ڈے”اونہوں”
میں بمشکل ہنسی روک اماں کے پاس جا بیٹھی ۔
“اماں!
کیوں غصہ کرتی ہو ،بچےخوش ہوجائیں گے
اب دیکھو نہ بیچارے سارا دن سکول جاتے پھر ٹیوشن پہ چلے جاتے ہیں ،نہ کھیل کود کا وقت نہ شرارتیں کرنے کا ہم تو ان کے وزن سے بھی بھاری بیگ ان کے کمزور کندھوں پہ اٹھوا کہ خود ہلکی پھلکی ہو کے بیٹھ جاتی ہیں گھر میں،’پر یہ ننھے پھول بیچارے مرجھاۓ پھرتے ہیں ،سر کھجانے کی فرصت نہیں”
کیا ہے جو ایک دن ہلا گلا کر لیں گے ؟”
اماں جو کب سے رخ پھیرے بیٹھی تھیں ، اب سیدھی ہوئیں اور بولیں:
“دیکھ بہو رانی!بات ہلے گلے کی نہیں ہے ، یہ فضول خرچی ہے ۔
اماں!ایک بات بتاؤں ؟میں نے انکا شکوہ سمجھ لیا تھا، یہ بات میرے اور اللہ کے درمیان راز تھا پر آج تجھے بتاۓ دے رہی ہوں ۔۔۔۔
میں ہر سال گڑیا کی سالگرہ والے دن پہلے صدقہ کرتی ہوں۔اپنی حیثیت کے مطابق یتیم اور بیواؤں کو انکی چھوٹی چھوٹی خوشیاں خرید کر دیتی ہوں جیسے جیسے گڑیا بڑی ہورہی ہے میں اس مقدار میں اضافہ کر رہی ہوں۔
” پر دیکھ اماں! میں گناہگار بندی ہوں ،سارا سال اگر بھولی بھی رہوں تو اس دن یاد آجاتا ہے کہ رب نے مجھے کتنی بڑی رحمت سے نوازا ہے،بس اس کی نیک زندگی اور صحت کے لیے  یہ چھوٹا سا نذرانہ پیش کرتی ہوں۔
پھر اس کے بعد اگر یہ تھوڑا بہت فنکشن ہو بھی جاۓ تو بتا کیا مضائقہ ہے؟”
میں نے سوالیہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے کی چمک بتارہی تھی کہ آج “نئے دور کی ماں” “پرانے زمانے کی ماں” کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی  تھی۔
اماں نے مجھے گلے لگایا اور بولیں:
“جیتی رہ میری دھی”
اماں کے ہونٹوں پہ خوبصورت مسکراہٹ تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آج کل کے بچے۔۔۔۔۔حناشاہد

Leave a Reply