شام کا گلابی پن دھیرے دھیرے رات کی سیاہی میں ڈھل رہا تھا اور بہت دیر سے ایک ہی پہلو پر بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ سی گئی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کے بیچ گزرتی نہر کے کنارے گیلی مٹی کی مہک تھی اور یادوں کی کافوری خوشبو کے جھونکے بھی اس مہک کا حصہ تھے۔
بہت دیر سے میرے ذہن میں ایک شعر گونج رہا تھا۔۔”خیال یار! سلامت تجھے خدا رکھے۔۔تیرے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی” اور روشنی نہ ہوتی، بالکل نہ ہوتی اگر میرے ساتھ خیال یار نہ ہوتا۔
فروری کی شاموں میں ایک عجیب اداسی ہوتی ہے۔ جو محسوس تو ہوتی ہے مگر اس سے پہلے کہ اس کے جواز پر گرفت کی جائے یہ دھیرے سے پھسل کر ہوا برد ہو جاتی ہے اور جانے ہواوں میں کس کس کی اداسیاں گھلی ہیں جو ڈھلتی شاموں میں محبوب کا پیکر بن کر ساتھ آ بیٹھتی ہیں۔۔؟
فضا میں خنکی بڑھ رہی تھی “اس سے پہلے کہ ٹخنے کی موچ کا پرانا درد جاگ اٹھے، ہاسٹل کا رخ کرنا ہی بہتر رہے گا” میں نے خود کو خیالوں سے نکلنے کے لئیے اکسایا اور آخر کار اٹھ کر ہوسٹل کی جانب چل پڑی جو اولڈ کیمپس کے اندر ہی تھا۔
ایک ہوسٹل وارڈن ہونے کی حیثیت سے میرا قیام بھی وہیں تھا۔ ایک چھوٹا سا نیچی چھت والا کمرہ اور اس کے باہر مختصر بالکونی جس کی مشرقی دیوار روایتی جالیوں والی تھی اور وہاں چاندنی راتوں میں کرسی ڈال کر بیٹھنا اور سوراخوں سے چھن کر آتی چاندنی میں اسے سوچنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔
پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے فراغت پا کر کھانا کھاتے ہوئے تقریبا رات کے نو بج گئے ۔ ان دنوں ہاسٹل امتحانات کے بعد ہونے والی چھٹیوں کی وجہ سے تقریبا خالی ہی تھا ۔ صرف وہی بچیاں رہ گئی تھیں جو دوردراز کے علاقوں سے تھیں یا فائنل ایر کی طالبات جو آخری پراجیکٹ کی تیاری کے مراحل میں تھیں۔
میں نے حسب معمول چائے کا کپ بنایا اور بالکونی میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گئی۔ آخری تاریخوں کا پھیکا چاند ایک سوراخ سے دکھائی دے رہا تھا ۔ خاموشی اور تاریکی میں ایک بار پھر یادوں کا ریشمی تھان کھلنے لگا اور خیالوں کے شبستان سے ایک اور خیال اٹھکیلیاں کرتا ہوا میرے پاس آن بیٹھا۔
“سالگرہ مبارک”! اس نے میرے قریب بیٹھتے ہوئے جامنی اور گلابی چمکدار کاغذ میں لپٹا ڈبا میری جانب بڑھایا اور میں جو اتنی دیر سے نہر کے کنارے اس کی منتظر تھی، اندر سے کھل اٹھنے کے باوجود اسے ناراضگی دکھانے کی خاطر منہ پھیرے بیٹھی رہی۔ڈبا بڑھائے اس کا ہاتھ منتظر رہا، میں نے قریب رکھی فائل اور نوٹس اٹھائے اور واپس جانے کے لئیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ بوکھلا گیا” ارے سنو تو!! رکو!!” اس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے دوبارہ بٹھا لیا۔ “ارے بابا!! تحفہ تو میں نے کب کا لے لیا تھا۔۔ بس تمہارے پسندیدہ ذائقے کے چاکلیٹ ڈھونڈتے ہوئے تاخیر ہو گئی”!! محبت سے بولتے بولتے آخر پہ اس نے لہجے پر بے چارگی کا رنگ چڑھایا تو میری مصنوعی ناراضگی کا خول چٹخ گیا۔ ہم دونوں کی مشترکہ ہنسی نے نہر کنارے بیٹھے بلبلوں کے جوڑے کو اڑا دیا۔۔
میں نے بے حد اشتیاق سے ڈبے پر چڑھا کاغذ ہٹایا ۔ اسے کھولا تو میرے بے حد پسندیدہ مصنف کی اکٹھی تین کتابوں کے ساتھ چاکلیٹ بھی رکھا تھا۔ خوشی سے میری چیخ ہی نکل گئی”اف!! تمہیں یاد تھا؟؟ کہ یہ کتابیں میرے پاس نہیں تھیں”!! میری خوشی بے حساب تھی۔ وہ محبت سے مسکرا دیا اور کوئی جواب دئیے بغیر چاکلیٹ کا کور اتار کر میری طرف بڑھایا۔ اور ایک چاکلیٹ کو دو انسانوں نے شاید ایک گھنٹے میں ختم کیا تھا۔
“سنو!!” میں نے واپسی کے راستے پر اس کے ہمراہ چلتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ “ہوں!!”؟؟وہ کسی خیال سے چونکا۔ “کیا تم مجھے ہمیشہ چاکلیٹ تحفے میں دیا کرو گے”؟؟ میں نے اسے دیکھا۔
اس نے چلتے چلتے رک کر میری طرف دیکھا” نہیں!!” وہ پھر سے چلنے لگا اور میں جو “ہاں” سننے کی منتظر تھی خفا سی ہو گئی۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہا تھا” اب ہمیشہ تو چاکلیٹ نہیں دی جا سکتی ناں!! دیکھو آج سے تیس برس بعد جب ہم بوڑھے ہو چکیں گے تب ایک دوسرے کو شوگر اور بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کی دوائیں تحفے میں دیں گے۔ اور تم جو میری سالگرہ پر مجھے اونی سویٹر دیتی ہو، تب ٹخنوں پر چڑھانے والی پٹیاں اور گرم پانی کی بوتل تحفے میں دیا کرو گی” وہ شرارت سے ہنس رہا تھا اور میں اس کے کھینچے ہوئے منظر نامے میں کھو گئی تھی۔ اس کے ساتھ بوڑھا ہونے کا تصور اس قدر دلکش تھا کہ میں اپنی خفگی یکسر فراموش کر چکی تھی۔
قریب کے کسی کمرے سے موسیقی کی لے بلند ہوئی تو خیال سہم کر شبستاں میں جا چھپا۔۔رات گہری ہو رہی تھی۔ ” ایک بار چل دئیے گر تجھے پکار کے۔۔۔لوٹ کر نہ آئیں گے قافلے بہار کے” اف!! یہ کون میری دکھتی رگوں کو چھیڑے جا رہا تھا۔ یہ گیت اس کا بے حد پسندیدہ تھا اور کئی بار یونیورسٹی کی تقریبات میں وہ اسے گا بھی چکا تھا۔ اف یہ یادیں!
وہ فائنل ایئر کی الوداعی پارٹی تھی۔ چار سال کیسے گزر گئے علم ہی نہ ہوا ۔ یونیورسٹی کی دوستیوں، تعلقات اور خوابوں سے نکل کر عملی زندگی میں داخل ہونے کا وقت آن پہنچا تھا اور اس سے جدا ہو جانے کے خیال نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا۔ ان دنوں اس نے ملنا بہت کم کر دیا تھا شاید آنے والے وقت کے لئیے مجھے اور خود کو تیار کرنا چاہ رہا تھا مگر اسے ہر دن دیکھنے کی عادی آنکھیں بہت تکلیف میں تھیں۔ پڑھائی اور کورس تقریبا مکمل ہو چکا تھا مگر صرف اسے دیکھنے، اس سے بات کرنے کی چاہ میں ، میں روزانہ ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگایا کرتی تھی۔ اکثر تو میرے پاوں راہداریوں میں ٹہل ٹہل کر شل ہو جاتے اور وہ دکھائی نہ دیتا اور اگر نظر آتا بھی تو دوستوں کے ساتھ یا عجلت میں کسی پروفیسر کے قدم سے قدم ملا کر چلتا اور تبادلہ خیال کرتا ہوا ملتا۔
امتحانات کی تیاری، ممکنہ جدائی کا تلخ خیال اور فروری کی اداس مہک! یہ سب مل کر مجھے بولائے دے رہے تھے۔ میں اس سے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتی تھی، کسی آس امید کا آسرا چاہتی تھی جس کے برتے پر میں اس کا انتظار کر سکوں مگر وہ دستیاب ہی نہ ہوتا تھا!
انہی الجھے، اداس اور گنجلک دنوں کے پیچھے چلتے چلتے الوداعی تقریب کا دن آن پہنچا تھا اور میں صبح سے کمرہ بند کئیے روئے جا رہی تھی ۔ میرا تقریب میں جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر پھر مجھے منزہ کی زبانی معلوم ہوا کہ آج کی اس تقریب میں وہ گانا گائے گا۔شاید یہ وہ آخری موقع ہے اس کو جا لینے کا”!! میں نے سوچا اور تیار ہونے چل دی۔
جیسے تیسے تقریب ختم ہوئی اور ہال کی میزوں پر لوازمات چنے جانے لگے تو میں نے اسے آڈیوٹوریم کی سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے لپکی اور آخری سیڑھی پر اسے جا لیا۔
“مجھے تم سے بات کرنی ہے” میری آواز نم تھی اور چہرے پر تندی ۔ وہ کچھ لمحے میری طرف دیکھتا رہا اور میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں تلے حلقے تھے اور ایک گہری افسردگی چہرے پر پھیلی ہوئی تھی “نہر کے کنارے چلو، میں آتا ہوں” وہ دھیرے سے کہہ کر چلنے لگا تو مجھے لگا وہ ایک بار پھر مجھے بہلا کر غائب ہونا چاہتا ہے۔ “نہیں!! تم میرے ساتھ ہی چلو گے”!! میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ۔ پاس سے گزرتے دو پروفیسرز نے ہمیں گردن گھما کر دیکھا تو وہ خجل سا میرے ساتھ چل دیا۔ جلد ہی ہم نہر کے کنارے بیٹھے تھے۔
“کہو!! مجھے ذرا جلدی ہے” وہ مجھ سے قدرے فاصلے پر بیٹھا اجنبی سے لہجے میں بولا اور میں جو دھواں دھار انداز میں اس کے گریز اور نظراندازی کی وجہ جاننے اسے یہاں لائی تھی، اس کے لہجے کی بیگانگی سے تڑپ کر رہ گئی۔ وہ میرے جذبات سے ناواقف تو نہیں تھا! پھر اس قدر بے مہری؟؟” میرے شکوے، گلے اور ارادے میرے دل میں ہی دفن ہو گئے اور زبان پر خاموشی کا قفل آ پڑا۔ “کچھ نہیں!! معذرت چاہتی ہوں، تمہیں کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کے باعث یہاں لے آئی، مجھے کچھ نہیں کہنا”!! میں نے جھاڑیوں میں پھنس جانے والا دوپٹہ بے رحمی سے کھینچا اور اٹھ کر ہاسٹل کی جانب چل پڑی۔ وہ میرے پیچھے نہیں آیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد مڑ کر دیکھا تو میرے جامنی دوپٹے کا ایک ٹکڑا جدائی کے پرچم کی مانند کانٹے دار جھاڑیوں میں پھڑپھڑا رہا تھا اور وہ سر جھکائے یونیورسٹی کے گیٹ سے نکل رہا تھا ۔
امتحانات کے شیڈیول کا اعلان ہو چکا تھا اور میں بھی دانستہ اس کے خیال کو زہن سے جھٹک کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی لیکن اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو اسے محبت ہی کیوں کہا جاتا۔
اداس، پھیکے اور عجیب سی ہڑبونگ کے دن تھے ۔ کتابیں، نوٹس، امتحان اور اعصاب کو ٹھٹھرا دینے والی فروری کی اداس مہک!!
آخری پرچہ دے کر نکلی تو اتنے دنوں بعد وہ پیپل کے درخت سے ٹیک لگائے کھڑا نظر آیا۔ میں نے راستہ بدل دیا تو تیزی سے میرے پیچھے چلنے لگا۔ “مجھے تم سے بات کرنی ہے” وہ میرے برابر پہنچ گیا تھا” مگر مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی” میں نے قدموں کی رفتار بڑھا دی لیکن تبھی مجھے ایک زوردار جھٹکا لگا۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ “تم نے سنا نہیں؟؟ مجھے تم سے بات کرنی ہے!! ” سرراہ تماشہ نہ بنے اس لیئے میں نے اس کی بات مان لی۔
مولسری کے پیڑ کے نیچے ننھی ننھی کلیوں کا سفید چاندنی سا فرش ہو رہا تھا اور پھیکی دھوپ میں لیموں کے پھولوں کی ترش مہک تھی۔
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے مجھے اپنے گھریلو حالات، والدین کی توقعات اور اپنی ذمہ داریوں کے متعلق بتا رہا تھااور میرے دل میں جو غلط فہمیاں آ بسی تھیں وہ رفع ہو گئیں۔ بہت دیر بعد جب ہم وہاں سے اٹھے تو میرے پلو میں اس کے انتظار کا وعدہ بندھا تھا ۔ ہاں!! میں نے عہد کر لیا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا کر آئے، میں دہلیز پر منتظر ملوں گی!!” فیصلہ کٹھن تھا مگر تب محبت کا خمار اسے پھولوں جیسا سبک دکھا رہا تھا۔ وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہا۔ وہ امتحانات کے بعد اپنے آبائی علاقے کو لوٹ گیا اور میرے بھائی بھی مجھے لینے آ پہنچے۔ تمام رات کے ٹرین کے سفر کی تھکن بھی ابھی نہ اتری تھی کہ بھابھی نے آ جگایا” تیار ہو کر آجاو، پھپھو تمہارا رشتہ لائی ہیں” اف!! اس امتحان کے بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ مگر پلو سے بندھا عہد بھی تو میرے ساتھ چلا آیا تھا۔ میں نے ہمت کرتے ہوئے انکار کر دیا اور زندگی آنے والے وقتوں میں مزید مشکل ہوتی گئی۔ خاندان برادری والوں نے شرم حیا دھل جانے کے طعنے دئیے اور اکا دکا جو برادری سے باہر طلبگار بن کر آتے انہیں بالا ہی بالا بھگا دیا جاتا۔
دن مہینوں میں ڈھلتے اور مہینے سالوں میں بدل جاتے، اس کی کوئی خبر نہ تھی اور میرے بالوں میں چاندی اترنے لگی تھی۔
انہیں دنوں اخبار میں اشتہار دیکھا کہ یونیورسٹی میں کچھ ملازمین کی بھرتی کی جا رہی تھی۔ بھابھی جو اب میرے وجود سے بیزار ہوتی جا رہی تھی اس نے کسی نہ کسی طرح مجھے ملازمت کی اجازت دلوا دی اور ایک بار پھر میں اسی طلسم کدے میں آن پہنچی جہاں میں نے عمر بھر کے انتظار کا بار اٹھایا تھا اور پتھر ہو گئی تھی۔
ہاسٹل انچارج کی ذمہ داری سنبھالی تو رہائش کا مسلہ بھی حل ہو گیا اور یادوں کے شبستاں میں پناہ بھی مل گئی۔۔
آج میری ملازمت کو ایک سال مکمل ہو گیا تھا اور اس ایک سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کی ہر شام میں نے اس کے گمشدہ قدموں کے نشانوں کو کھوجتے گزاری تھی۔ نہر کے کنارے پر گھنٹوں اسے تصور کیا تھا۔ راہداریوں میں اس کی پرچھائیں کا تعاقب کیا تھا اور خیال یار کی دنیا اپنے ہمراہ کر لی تھی۔ اب وہ کہیں نہیں تھا مگر ہر سو تھا۔ خدا جانے! وہ میرے ساتھ بوڑھا ہونے کے وعدے کرنے والا اب کس کے دکھتے جوڑوں کو سہلا رہا ہو گا؟ کس کی کھانسی کی دوا ڈھونڈ رہا ہو گا؟؟ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟؟ وہ میرے خیالوں میں صرف میرا ہے۔ محبت کرنے والا ساتھی!! جو ہمیشہ ہی میرا رہے گا!!
گھڑی نے بارہ کا ہندسہ عبور کر لیا تھا اور ماضی کے اس سفر نے مجھے ذہنی طور پر تھکا دیا تھا۔
میں کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے میں جانے کے ارادے سے مڑی تو شال کا کونا کسی گرفت میں آ گیا۔ میں پلٹی تو وہ شرارت سے میری شال مٹھی میں دبائے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ “ابھی مت جاو ناں” وہ گنگنایا” بہت ستانے لگے ہو، چلو بھاگو، کل ملتے ہیں” میں نے شال چھڑائی اور مسکراتے ہوئے سونے چل دی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں