• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں اقلیتی برادری کو درپیش چند حقیقی خطرات۔۔۔۔اطہر شہزاد

پاکستان میں اقلیتی برادری کو درپیش چند حقیقی خطرات۔۔۔۔اطہر شہزاد

آخر کار وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کوان بلیک لسٹ ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جہان اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستانی اقلیتوں کی نا گفتہ بہ معاشی اور معاشرتی پسماندگی کا حوالہ دیا گیا ہے، اور ملک میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا واقعی پاکستان میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو کسی قسم کے خطرات لاحق ہیں؟ یہ کس نوعیت کے خطرات ہیں ؟
گزشتہ صرف ایک سال کا ہی جائزہ لیں تو اس حوالے سے پاکستان میں صورت حالت کافی مخدوش نظر آتی ہے، یہاں گو کہ اقلیتوں کو مجموعی طور پر کسی امتیازی سلوک کا نشانہ تو نہیں بنایا جاتا ہے، تاہم انکے سروں پرخوف اور عدم تحفظ کی ایک سے زائد تلواریں لٹک رہی ہیں۔
پاکستان سوسائٹی میں عام طور پر لوگوں   میں مذہبی رواداری کی اچھی مثالیں بھی موجود ہیں، یہاں زیادہ تر لوگ فر اخ دل اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہیں، لیکن یہاں چند ایسے طبقات بھی ضرور موجود ہیں جن کی دال روٹی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے پرچار سے چلتی ہے، جذباتی، جاہل اور شعور سے عاری ایک مخصوص لیکن چوکس گروہ یہاں موجود ہے، یہ طبقہ سستی جذباتیت کے سہارے حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور کئی مرتبہ کامیاب بھی رہتا ہے
آسیہ بی بی کے حالیہ کیس نے بھی عالمی منظر نامہ میں پاکستانی معاشرےکےبارے میں منفی تاثر پیدا کیا ، کھیتوں میں کام کرنے والی ایک ناخواندہ عورت، جس نے چند اپنے جیسی خواتین  کے سامنے جانے کیا کہا یا نہیں کہا، لیکن پاکستانی معاشرہ کے مخصوص انتہا پسند طبقے نے یہاں بھی پاکستان کی روسیاہی کا پورا انتظام کیا اور جس طرح لٹھ لے کر ، یک طرفہ طور اس کیس کے پیچھے پڑ گیا وہ قابل مذمت ہے ۔
یہ بھی یاد رکھیے  کہ ٹو نائینٹی فائیو کا کیس سرکار کی مدعیت میں درج ہوتا ہے، 22 کروڑ عوام کے نفع نقصان اور مفادات کی نگرانی کرنے والی حکومتیں عالمی رد عمل کا بخوبی اندازہ کر لیتی ہیں اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہی فیصلے کیے جاتے ہیں، اور لوگ مذہبی نقطہ نظر کی بھی من مانی تشریح کو پسند کرنے کے عادی ہیں، اسلام جب ایک فرد واحد کو قصاص اور دیت کے آپشن اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے، تو اسٹیٹ کوبحثیت مدعی کیوں اس قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہوسکتے ؟ ریاست پاکستان کو ملکی مفاد میں صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی سہولت ہونی چاہئے، پاکستانی عدالتوں میں غلط اور درست فیصلے ہوتے رہتے ہیں لیکن جب کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر ایک کیس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں، تو ہم پھرکس منہ سے کہہ سکتے ہیں  کہ پاکستان میں مذہبی رواداری نام کی کسی فاختہ کا وجود ہے ؟
عاطف میاں کی مثال بھی دی جاسکتی ہے ۔۔۔۔ جسے قادیانی ہونے کی بناء پر پاکستانی سماج کے چھوٹے سے انتہا پسند طبقہ نے جہالت اور نفرت کا شکار بنا دیا، جب صرف مذہبی عقائد کی بناء پر آپ کسی فرد کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگاتے ہو، اس کی فنی مہارت اور صلاحیت سے استفادہ کرنےسے انکار کرتے ہو۔ تو اس عمل کوکس طرح جسٹی فائی کیا جاسکتا ہے، اور پاکستانی پرچم میں سفید رنگ کی پٹی کا کیا مقصد ہے ؟
پاکستانی سماج کا عمومی ٹولیرنس لیول بہت بہتر ہے، لیکن مذہب کے نام پر انتہا پسندی کا پرچار کرنے والی سوچ بھی یہاں  کافی توانا ہے۔۔
پاکستان میں قانون کی پاسداری سمیت ہر معاملے  میں حکومت کی رِٹ قائم رہنی چاہئے، ورنہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی روء سیاہی کے مزید امکانات بھی ابھی موجود ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply