بشری پلیز ۔۔ جتنا ممکن ہوسکے سختی سے کام لیجیے۔یونیفارم چینج نہ ہوا .. کاپیاں کتابیں اسکول سے نہ لی گئیں تو بچے کو باہر سے باہر والدین کے ہاتھ رخصت کر دیں۔اسکول میں بچہ داخل نہ ہو۔یہ کہتی ہوئی پرنسپل میری کلاس سے باہر نکل گئیں!
یہ آج کی بات نہیں پرنسپل کو روز مجھ سے شکایت تھی کہ اتنی رعایت نہ دیجیے سختی سے کام لیجیے اور خدا گواہ مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ والدین کی بے چارگی دیکھتی ۔نہ جانے کتنے والدین کے میرے پاس فون آچکے کہ پرنسپل سے بات کرکے ان کے لیے کچھ ٹائم لے لوں اور یہ والدین پیسوں کا بندوبست کرکے اگلے ایک دو مہینے میں اسکول کی مونو گرام لگی کاپیاں اور دوسرے نئے یونیفارم کا بندوبست کر سکیں ۔
یاد رہے جس اسکول میں میری جاب تھی وہ لیبر بچوں یا مستحق بچوں کو کم فیس بہتر سہولیات دینے والے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا تھا۔ موجودہ پرنسپل کی بہ نسبت پرانی پرنسپل ہی محنت لگن اور “کم خرچ بالا نشیں ” کے اصول پر عمل پیرا ہوکر اپنے اسکول کا نام بہترین اسکولوں میں شامل کرواچکی تھیں۔اور اس زمانے میں مجھے خاص طور سے تلقین کی گئی تھی کہ نئی کلاسز میں جانے والے بچوں کی پرانی کاپیوں کے غیر استعمال شدہ صفحات اپنی نگرانی میں الگ کرکے مختلف سائز کی کاپیوں کی ترتیب دے دوں تاکہ کچھ مضمون کی کاپیاں لینے سے والدین پر خرچوں کا بوجھ نہ پڑے بلکہ انہی سہولیات کی بدولت نئے غیر استعمال شدہ صفحات کی قدر بھی کی جاتی .. چھوٹی چھوٹی پینسل پھینکنے کی اجازت نہ تھی .. ان کو اسکول میں جمع کردیا جاتا . تاکہ کسی مجبوری کے تحت مستحق بچے کو دے دی جائے .پرانی پرنسپل کے اچانک انتقال کے بعد نئی انگلش میڈیم اسکول کی ریٹائرڈ پرنسپل آگئیں انہوں نے والدین پر بے انتہا غیر ضروری ذمہ داریاں ڈالیں ، جہاں ہر سال جوق در جوق غریب والدین اپنے بچوں کا ایڈمیشن کرواتے، وہاں اب کترانا شروع کردیا ۔یا تو بچے کوگھر بیٹھا لیتے یا ایک دو کلاسز پڑھوا کر اسکول سے نکلوا دیتے۔
جو مجبوری کے تحت بچے اسکول میں پڑھ رہے تھے ان کے والدین اتنے عاجز آگئے تھے کہ اب ان کی بہترین توجہ بچوں کی تعلیم پر جب تھی یا جو بچہ ہر سال اچھی پروگریس دیتا اب ان کے والدین تعلیم پر توجہ کے بجائے نئے یونیفارم تین تین چار سو صفحات کے جرنل کاپیوں کے لیے باہر پیسوں کے لیے باگ دوڑ کررہے ہوتے ہیں ۔
بھلا یہ بات تو عقل میں آتی ہوگی کہ سفید پوش یانچلے طبقے کے ٹینشن زدہ ماحول میں جہاں اتنے مسائل جنم لیتے ہیں وہاں ان چونچلوں کی کہاں سے گنجائش نکلتی ہے ؟
اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت پر توجہ ہٹ کر دن بھر پیسوں کا رونا رویا جاتا .. انتظامات کیے جاتے ، والدین پر اتنی غیر ضروری ذمہ داری ہوتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر چڑاچڑا پن اور بچوں پر مار پٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
ممکن ہے ایک دو سال بعد بدظن یا مایوس ہو کر حالات کی بنا پر بچوں کو اسکول سے نکلوا لیا جاتا یا پھر دوسری صحت مندانہ سرگرمیوں کو پس پشت ڈال کر ان سکول والوں کے چونچلوں پر خرچے کیے جاتے۔
جس کی بنا پر بچے پر توجہ کم اور گھریلو کشیدگیاں نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اندازے کے مطابق اگر یہ سوچا جائے ایسے حالات میں بچے کی صلاحیتیں نکھریں گی، کسی معاشرے کا ہائی اسٹینڈرڈ کافرد کہلانے کا مستحق ہوگا یہ آپ کی بھول ہوگی ..بہت ممکن ہے اگر بچہ آگے جاکر بہترین صلاحیتیں دکھا رہا ہے تو یقیناً اس کا دماغ گھر کے بہترے مسائل کی آماجگاہ بھی بنا ہوا ہوگا۔
تعلیم حاصل کرنا گویا تعلیمی ڈگری لینا نہیں ہے بلکہ تعلیم کی آڑ میں دوسری تربیت بھی نکھاری جاتی ہے … کل وہ بچہ گھر کے حالات دیکھتے ہوئے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے یا گھر کے ٹینشن زدہ ماحول اور مسائل دیکھتے ہوئے والدین گھریلو کشیدگی پر جو زبان استعمال کریں گے وہ ہی زبان یہ بچہ آگے جاکر بھی استعمال کرسکتا ہے… اور اس وقت اس تعلیم کو ہی الزام دیا جائے گا
کہنے کا مطلب یہ ایسے مسائل والدین کے لیے نہ پیدا کیجیے جو آگے جاکر بچے پر اثرانداز ہوں .تاریخ کو دیکھیے یا پھر جس قسم کے حالات کی وجہ سے تعلیم زوال پذیر ہے ۔
مجھے یاد ہے والد صاحب نے کس طرح محنت و جانفشانی سے تعلیم دلوائی، پچھلی کلاسز کی کاپیوں کے غیر استعمال شدہ صفحات کو جوڑ کر خود سی کر اسی پر کام کرواتے .. چھوٹی پینسل ہوجاتی پین کے کیپ لگا کر مناسب سائز کی کردیتے جس سے پکڑنے میں دقت نہ ہو۔
اس میں کسی قسم کا عار اور شرم نہ تھی بلکہ تعلیم کی قدر تھی … صفحات کی قدر تھی،اسکولوں میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک یا والدین پر اتنی کاپیوں کتابوں کا بوجھ نہ لادا گیا تھا ..اس وقت جس قسم کی فیس تھی اس دور کی ہوش شربا فیسوں سے کئی گنا کم تھیں .
یہ ہی قدریں آگے جاکر اتنی مستحکم ہوئیں کہ مزید بہترین کاپیاں پینسلیں لینے کے قابل ہوئے .. گھر کے ماحول میں ان چونچلوں سے اتنی کشیدگی نہ پیدا کی گئی کہ زبان پر فرق پڑتا یا دماغ پر اثر انداز ہوکر ہماری ترییت میں فرق پڑ جاتا۔
اسی توازن پر دوسری سرگرمیوں پر بھی توجہ چلی جاتی بالکل ایک صحت مندانہ ماحول کے ساتھ بلکہ ہرنصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر توازن تھا…. اور پھر اس کا نتیجہ آگے جاکر بہترین مستقبل کی صورت میں سامنے آیا .. گھر کا ہر فرد ڈاکٹر انجینئر یا کسی ماسٹر ڈگری سے کم نہیں . ایک اندازے کے مطابق جو قابلیت اور تربیت ہماری عمر کے لوگوں میں نظر آتی ہے وہ آج کل ناپید ہے
تعلیمی معیار وہ نہیں جو پہلے تھا.. خوبصورت لہجے بہترین قابلیت بہترین صحت مندانہ دماغی ماحول . تربیت وہ نہیں جو پہلے تھی تعلیم کے زوال کا ایک سبب یہیں سے شروع ہوا . اس کے بعد آگے جاکر اسی سبب سے دیگر اسباب کی کڑیاں جڑتی چلی گئیں۔
جہاں بنیادیں کھوکھلی ہوں وہاں پتے اور دیواریں خستہ حال ہی نہیں ملتی ایک کمزور بنیاد کی وجہ سے دیگر اسباب اتنے پھیل جاتے کہ اصل سبب نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ..
اصل سبب نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے .. آپ دیگر اسباب او ر اس کا سدباب تلاش کرتے رہیں گے ..گتھیاں سلجھاتے رہیں گے اصل وجہ محو ہوتی جائے گی۔. مزید الجھاو پیدا ہوتا رہے گا
۔ستم ظرفی تو یہ کہ نجی اسکولوں کے ساتھ اب سرکاری اسکول بھی اس میدان میں آگے ہیں .. جو ہائی کلاس طبقے تعلیم سے فارغ التحصل ہیں ،وہ ملکی حالات و اسباب کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ یہاں سے جیسے تیسے تعلیم حاصل کرکے بیرون ممالک اپنا کرئیر بنانے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں ،یہ سب پیسے کے بل بوتے پر ہوتا . رہا متوسط طبقہ وہ بیرون ممالک اپنا کرئیر مضبوط کرنے کے متحمل نہیں تو ملک کے انھی حالات میں رہ کر وہ ہی نسلیں پروان چڑھا رہا جو خود اس نے سیکھا ۔
جو نسلیں اس تعلیمی معیار پر پروان چڑھ رہیں اس کا موازنہ بہ آسانی آج سے بیس پچیس سال پہلے سے کرسکتے ہیں . اس وقت کا تعلیمی معیار اور آج کا…..یہ مسائل اس حد تک سرائیت کر چکے کہ اب تو بہترین تعلیمی ادارے تو دور کی بات گلی کوچوں میں کھلنے والے اسکولوں نے بھی ان کی نقالی شروع کردی ..
حکومت کو اس سلسلے میں نوٹس لینے کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ مسئلہ کافی طویل اور گھمبیر صورت اختیار کرچکا ہے ۔خود والدین کو بھی اس سلسلے میں کچھ نظر ثانی کی ضرورت ہوگی کہ چھوٹا موٹا اقدام اور کفایت شعاری گھر سے بھی شروع کرسکتے ہیں .. کیونکہ کوانٹیٹی سے زیادہ کوالٹی بہترین مستقبل کی ضمانت ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں