محمود کا ایاز۔ ۔ ۔ سیدہ ماہم بتول

 ابو النجم احمد ایازؒ ابن ایمق۔ 
شہنشاہ محمود غزنوی ابن سبکتگین کے محبوب مشیر و سپاہ سالار ابو النجم احمد ایازؒ کا مقبرہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں رنگ محل چوک کے نکڑ میں ایک چھوٹی سی مسجد “جامع مسجد ایاز” میں واقع ہے۔
ابو النجم احمد ایازؒ کے بارے میں تاریخ کی کتب میں زیادہ تفصیل سے پڑھنے کو نہیں ملتا سوائے ان کی سلطان محمود غزنوی سے وابستگی اور قربت کے، کہ سلطان انہیں کس قدر محبوب رکھتا تھا اور ان کے مشوروں کو کتنی اہمیت دیتا تھا۔ 11ویں صدی عیسوی میں جب سلطان محمود غزنوی نے لاہور فتح کیا تو واپسی پر ایازؒ کو یہیں شہر کا حاکم بنا کر چھوڑ گیا۔ بعض تاریخ دانوں کے نزدیک ایازؒ کے لاہور فتح کے وقت یہیں رہ جانا ثابت نہیں کیوں کہ سلطان کی اس قدر قربت ہونے کی وجہ اور تقریبا گھر کے فرد جیسی حیثیت ہونے کے سبب ایسا ممکن نظر نہیں اتا۔ سلطان محمود غزنوی کی وفات کے بعد ایازؒ سلطان کے فرزند ناصر الدین مسعود سے وابستہ رہے، اور لاہور میں وارد نہیں ہوئے۔ ایازؒ کی لاہور میں آمد کے بارے میں مؤرخین نے لکھا کہ وہ ناصر الدین مسعود کے بڑے بیٹے “مجدود” کے ساتھ آئے جو اپنے باپ سلطان ناصر الدین مسعود کی طرف سے لاہور کا Viceroy، سالار اور وزیر تعینات ہوا تھا اور ایاز مشیر خاص مقرر ہوئے، اور انھیں “ملک” کا خطاب دیا گیا۔
ابو النجم احمد ایازؒ کا تعلق کہاں سے تھا؟ اس بارے تاریخ دانوں نے لکھا کہ ایازؒ کا تعلق جارجیا کے کسی قبیلے سے تھا اور وہ ایک سفید فام غلام تھے، نہ کہ سیاہ فام (جیسا کہ اکثر تصاویر میں دکھایا جاتا ہے)۔ کچھ نے انہیں “ایمق قبائل” سے فارسی النسل بتایا ہے۔ بعض دوسرے مسلم تاریخ دان اس سے متعلق دوسرا مؤقف رکھتے ہیں کہ ایازؒ اپنی درویشی طبیعت کی وجہ سے صوفی تھے، اور تبلیغ اسلام کیا کرتے تھے۔ باوجود قرب سلطانی کے ایازؒ کی زندگی بڑی سادہ اور کفایت شعارانہ تھی۔ وہ زمانہ قرب سلطانی سے پیشتر کا مفلسانہ لباس بطور یادگار اپنے پاس صندوق میں محفوظ رکھتے اور جب کبھی اس یادگار کو ملاحظہ کرتے تو یاز قدر خود بشناس کہتا یعنی ایازؒ تو اپنی ماضی کی حیثیت کو بھول نہ جانا۔ ایک دوسرا طبقہ دربار سلطان میں حضرت خضر (؏) سے متعلق قصے میں ایازؒ کو “سید” مانتا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہم اجماع کے حوالے سے یہ بات سامنے رکھتے ہیں کہ ایازؒ کی سادہ زندگی، اور ان کے سلطنت کے فیصلوں بارے مشوروں اور میسر معلومات کے تحت ایاز ایک درویشانہ زندگی خوف خدا اور درد مخلوق رکھنے والے ایک دانا انسان تھے، جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے لئے احترام و عزت موجود تھی، نیز سلطان اور اس کے گھر والے ان کی بات گھریلو یا سلطنت کے معاملات میں مقدم رکھتے تھے۔
اابو النجم احمد ایازؒ کی وفات کیسے ہوئی؟ اس بارے تاریخ خاموش ہے۔ ان کا قتل ہوا؟ یا طبعی وفات ہوئی اس بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں۔ اس بارے میں بعض مورخین نے لکھا کے سلجوقوں کی جانب سے غزنوی سلطنت کو challenge کیا گیا تو ناصر الدین مسعود نے اپنے دوسرے بیٹے شہاب الدین مودود کو ایک لشکر کے ساتھ روانہ کیا سلجوقوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے۔ شہآب الدین مودود اور ایازؒ کی ملاقات دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر 4 اگست 1041ء کوئی ہوئی۔ اس معرکہ کے کچھ دن بعد 8 اگست کی صبح بعد عید نماز الاضحی “مجدود” جو کہ لاہور شہر کا حاکم تھا، اپنے بستر پر مردہ حالت میں پایا گیا۔ اور اس کے کچھ دن بعد ایازؒ بھی اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کی موت کی وجہ آج بھی پراسرار ہے۔
سکھ دور حکومت میں جہاں باقی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی، وہیں ایازؒ کے مقبرے اور باغ کو بھی اکھاڑ دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت کی جانب سے ایک مقبرہ اور مسجد تعمیر کی گئی۔ ایازؒ کو تاریخ سنہرے الفاظوں میں یاد کرتی ہے، اور نصاب میں کتابوں میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ بہت سے معروف شعراء بشمول حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے شاندار الفاظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز،
نہ کوئي بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز​
 مآخذ:
(1) تاریخ فرشتہ، مؤلف محمد قاسم فرشتہ، فارسی تاریخ دان۔
(2) زین الاخبار، مؤلف ابو سعید گردیزی، فارسی گردیزی تاریخ دان و درباری سلطان محمود غزنوی۔
(3) شکوہ، علامہ محمد اقبال۔
(4) تاریخ بیہیقی، ابو الفضل بیہیقی، فارسی تاریخ دان۔

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply