• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • پیپلز پارٹی دھرنے کا حصہ بننے کو بھی تیار جمہوریت بچانے کو بھی تیار!

پیپلز پارٹی دھرنے کا حصہ بننے کو بھی تیار جمہوریت بچانے کو بھی تیار!

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے

پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو اس مرحلے پر کوئی واضح فیصلہ کرنے کے بجائے کبھی پی ٹی آئی لیڈر کے بارے کہتی ہے کہ اسے سیاست کرنا نہیں آتی تو کبھی میاں صاحب کے بارے کہا جاتا ہے کہ انھیں حکومت کرنا نہیں آتی۔مگر سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی بعض غیر اعلانیہ مجبوریوں کے باعث نہ تو اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے اپوزیشن کر رہی ہے اور نہ ہی واضح طور پرحکومت کے ساتھ کھڑی ہے،جیسا2014کے طویل دھرنے کے دوران میں پیپلز پارٹی نے آگے بڑھ کر پارلیمان اور حکومت کو تحفظ دیا تھا۔اب مگر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ صاحب نے گذشتہ سے پیوستہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی حالات دیکھ کر خوف آتا ہے۔ اس کا ذمہ دار انھوں نے یہ کہہ کر پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت کو قرار دیا کہ عمراں خان کو سیاست کرنا نہیں آتی جبکہ نواز شریف کو حکومت کرنا نہیں آتی۔ اس اہم مرحلے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر پیپلز پارٹی کے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے؟

اس حوالے سے ’’لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 2 نومبر کو ہونے والے احتجاج کا حصہ نہیں ہوگی تاہم اگر سیاسی کارکنوں پر 'تشددکیا گیا تو ہم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔اعتزاز احسن کا مزید کہنا تھا، 'ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان درست راستے پر جارہے ہیں اور ان کا نقطہ نظر درست ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم نواز شریف سے ہی ہونا چاہیے، لیکن وہ احتساب سے بھاگ رہے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کو خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا ہی پڑے گا۔اعتزاز احسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام ادارے وزیراعظم کے تابع ہیں جس وجہ سے کارروائی نہیں ہو رہی، لیکن اگر کوئی اور ہوتا تو اب تک پاناما لیکس پر کارروائی شروع بھی ہوچکی ہوتی۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات سامنے آئے تھے۔ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز کے معاملے پر بھی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔یہ معاملہ ازاں بعد پی ٹی آئی سپریم کورٹ لے گئی جس پر عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم سمیت متعلقہ افراد اور اداروں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور اس حوالے سے اس کی تیاریاں مکمل ہیں۔

نیز حکومت کا کہنا ہے کہ دھرنا گروپ سے ’’قانون‘‘ کے مطابق نمٹا جائے گا۔وفاق سمیت چاروں صوبوں سے پولیس کی نفری وفاقی پولیس کی مدد کو آئے گی۔خدشہ یہی ہے کہ دھرنے سے قبل حکومت پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون کرے گی جبکہ اسلام آباد پہنچنے والوں سے بھی سختی سے نمٹا جائے گا۔اس حوالے سے معمولی غلطی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ عمران خان نے اپنی جلسے کے لیے کالعدم تنظیموں سے افرادی قوت مانگ لی ہے۔
یوں ایک دردناک صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔کیونکہ کالعدم تنظیموں کی افرادی قوت اپنی فطرت کے مطابق قوت کا مظاہرہ بھی کرے گی جس سے سیاسی کارکنوں پر تشدد کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ایسی کسی صورت میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔یہ امر واقعی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن پیپلز پارٹی سے مزاحمتی سیاست اور جارحانہ اپوزیشن کی توقع رکھتے ہیں جبکہ پارٹی آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی پاس دار بھی رہنا چاہتی ہے اور کسی حد تک اپنے ووٹرز کو خوش بھی کرنا چاہتی ہے۔اس کی دوہری پالیسی پارٹی کے لیے کسی فائدے کے بجائے نقصان دہ ہی ہو گی۔دھرنے میں کسی ایسے مرحلے میں شرکت پارٹی کی سیاسی کم فہمی تصور کی جائے گی جبکہ حکومت کی خاموش حمایت کرپشن کو تحفظ دینے کی شعوری کوشش سمجھا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور حکومت میں سے کسی ایک کا سیاسی اتحاد بننے کے بجائے اپنے زور بازو پہ ایشو کی جارحانہ سیاست کرے تا کہ اپنے ووٹرز میں اس کی کھوئی ہوئی قدر بحال ہو۔ملکی صورتحال کے اس نازک مرحلے پر پیپلز پارٹی مشروط پیشکشیں کر کے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہ کر پائے گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply