• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اندھیرا چھا رہا ہے آہستہ آہستہ۔۔۔۔کیٹ شوپن /مترجم: مِس افتخار

اندھیرا چھا رہا ہے آہستہ آہستہ۔۔۔۔کیٹ شوپن /مترجم: مِس افتخار

انسانوں میں میری دلچسپی ختم ہو رہی ہے ، ان کی زندگیوں اور ان کے اعمال کی اہمیت میرے لئے بے معنی ہو رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دس کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے ایک انسان کو پڑھا جائے۔ مجھے نہ انسان چاہئے نہ کتابیں ؛ دونوں مجھے تکلیف دیتے ہیں۔ کیا ان میں سے ایک بھی میرے ساتھ ایسے بات کر سکتا ہے جیسے گر میوں کی رات کرتی ہے؟ جیسے تارے کرتے ہیں یا پھر محبت سے بھرپور ہواؤں کے جھونکے کرتے  ہیں؟

جب میں میپل کے درخت کے نیچے لیٹتی ہوں تو رات آہستہ آہستہ نرمی سے نزول کرتی ہے یہ رینگتے ہوئے ایسے چھپ کر وادی میں اترتی ہے جیسے کہ میں اس سے بے خبر ہوں۔ اور جب ارد گرد کے درختوں کے خدوخال اور پتے گہری سیاہی میں گھل جاتے ہیں تو رات تیزی سے ان میں سے بھی باہر نکلتی ہے، مشرق اور مغرب سے بھی یہاں تک کہ آسمان پر موجود واحد روشنی میپل درخت کے پتوں سے گزر کر زمین پر نہ ٹپکے اور آسمان پر موجود تارے نیچے زمین کے تمام گوشوں کو نہ جھانکے۔

رات سنجیدہ ہوتی ہے اور پر اسرار معنی رکھتی ہے۔

انسانی اشکال غیر مادی اشیاء کی طرح آہستہ آہستہ حرکت کر تی ہیں۔ کچھ چوہے کی مانند مجھے جھانکتے ہوئے ڈرا دیتے ہیں لیکن میں برا نہیں مناتی۔ میری پوری ہستی سکون بخش رات کی آمد کی خوبصورتی میں کھو چکی ہے۔

جھینگروں نے نیند کے گیت گانا شروع کر دیئے ہیں۔ کتنے عقلمند ہیں وہ ، انسانوں کی طرح لایعنی باتیں نہیں کرتے بس مجھے صرف اتنا کہتے ہیں ” سو جاؤ ! سو جاؤ ! سو جاؤ” ہوائیں میپل درخت کے پتوں کو محبت بھرے گداز سے جھلاتی ہیں۔

بےوقوف کیوں زمین کے لئے رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ! یہ آدمی ہی کی آواز تھی جس نے جادوگر کے طلسم کو توڑا۔ آج انجیل لئے ہوئے ایک آدمی آیا، وہ اپنے سرخ گال ، بے خوف آنکھوں اور گفتگو کے کھردرے پن کی وجہ سے ناقابل برداشت ہے۔ یہ کیا جانتا ہے عیسیٰ کے بارے میں ؟ کیا مجھے ایک بیوقوف نوجوان جو پرسو پیدا ہوا اور کل مر جائےگا سے عیسیٰ کے بارے میں پوچھنا چاہئے ؟ اس سے بہتر ہے میں ستاروں سے پوچھوں وہ اُن کو دیکھ چکے ہیں۔

Original Title: The Night Came Slowly
Written by:
Kate Chopin (February 8, 1850 – August 22, 1904), was an American author of short stories and novels based in Louisiana

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اردو ادب کے عالمی صفحات

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply