چاغی میں شدید قحط سالی کے اثرات۔۔۔۔۔علی رضا رند

پانچ سالوں تک مطلوبہ مقدار میں بارشیں نہ ہونے کے سبب چاغی شدید قحط سالی کی زد میں ہے۔ جہاں پانی کے قدرتی ذرائع خشک ہونے اور چراگاہیں ختم ہونے سے لوگوں کی معاش کے سب سے بڑے ذرائع زراعت اور مالداری اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں کیونکہ کئی علاقوں میں پانی کی سطح 20 تا 25 فٹ نیچے گرگئی ہے جب کہ 6281 مالدار اپنے مویشی موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر قصابوں کو بیچ رہے ہیں۔

چاغی میں قحط سالی نے انسانی زندگیوں کو بھی شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔ جہاں 2509 بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ کئی بچے موت کے منہ میں چلے گئے، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ بارشوں میں ریکارڈ کمی نے چاغی میں درجہ حرارت کو 48 سے 51 سینٹی گریڈ تک پہنچا دیا، جس کی وجہ سے بعض اوقات دالبندین ایئرپورٹ پہ جہاز تک لینڈ نہیں کر پاتے۔

محکمہ موسمیات دالبندین کے انچارج آفیسر عبدالناصر بنگلزئی کے مطابق 2015 سے اب تک چاغی میں بارشوں کی سالانہ شرح 25 ملی میٹر ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق چاغی میں 2013 سے بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، جس نے پورے ماحول کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے مطابق چاغی میں بارشوں کی کم از کم سالانہ شرح 200 ملی میٹر ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو پاتا جو موسمیاتی ابتری کی وجہ بن رہا ہے۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو گرمی کی شدت کے منفی اثرات حیوانات و نباتات اور انسانی زندگیوں کو اجیرن بنا ڈالیں گے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چاغی ڈاکٹر امداد بلوچ کے مطابق ایک حالیہ سروے میں 5910 بچوں کا معائنہ کیا گیا جن میں 2509 بچے غذائی قلت جب کہ 1084 شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ ان کے مطابق سروے میں 388 ماؤں کا بھی معائنہ کیا گیا، جن میں 168 شدید غذائی قلت میں مبتلا ہیں۔ ان کے مطابق غذائی قلت کے شکار زیادہ تر بچوں کی عمریں 5 ماہ سے لے کر 10 سال تک ہیں جن میں متعدد بچے جان کی بازی تک ہارگئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق چاغی میں غذائی قلت اور طبی پیچیدگیوں کے باعث بچوں کی شرح اموات 32 فیصد ہے۔

محکمہ زراعت کے اعلیٰ آفیسر خلیل احمد مینگل کے مطابق بارشوں میں ریکارڈ کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث چاغی میں 80 فیصد کاریزات اور چشمے خشک ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے کجھور کے 20 فیصددرخت متاثر ہوئے جب کہ 11299 ایکڑ قابلِ کاشت زمین بنجر ہوگئی۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث باغات اور فصلات میں مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں، جس کی وجہ سے زمینداروں کا نقصان ہوتا ہے، تاہم شمسی توانائی سے پانی کی حصول کے ذرائع نے چاغی کی زراعت کو کچھ سہارا دیا ہے۔

محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے ڈپٹی ڈاریکٹر ڈاکٹر سعید بلوچ کے مطابق قحط سالی کے باعث چاغی کے6281 مالداروں کے 2,19305 مویشی شدید متاثر ہیں جن میں اکثر مختلف وبائی امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں، جب کہ بعض اتنے لاغر ہیں کہ اپنی جگہ سے اٹھ نہیں پاتے۔ ان کے مطابق 2016 میں کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ چاغی میں قحط سالی کے باعث 14231 مویشی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تعداد اونٹوں، بکریوں اور بھیڑوں کی تھی۔ ڈاکٹر سعید بلوچ کے مطابق جانور پہاڑی، صحرائی اور میدانی علاقوں میں ریت میں دھنسی جڑی بوٹیاں کھانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان کو ڈائریا، نمونیا، سانس کی بیماریاں اور منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں جو ان کی موت پر منتج ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈپٹی کمشنر چاغی محمد قسیم کاکڑ کے مطابق چاغی میں قحط سالی کے باعث 7000 خاندان متاثر ہوئے ہیں، جن کو فوری امداد پہنچانے کے لیے قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کو مراسلہ لکھا جا چکا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے 50 ٹرک راشن چاغی پہنچایا گیا۔ ان کے مطابق چاغی بھیجے جانا والا امدادی سامان 3000 خاندانوں کے لیے ہے، جس کی تقسیم شروع کر دی گئی ہے، جب کہ مزید امدادی سامان بھی بھجوایا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply