اس سال دسمبر کی 10 تاریخ کو انسانی حقوق کا عالمی دن منائے جانے کااعلان ہوا۔ انسانوں کے حقوق کی بنیاد رسول اللہﷺ نے تقریباً چودہ سو سال پہلے ہی رکھ دی تھی۔ رسول اللہﷺکو سب سے زیادہ محبت اپنی امت سے تھی اور اس محبت کا عالم یہ تھا کہ راتوں کو اٹھ کر آپؐ دعائیں مانگتے، روتے روتےراتوں کو ان کے سینے سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ہانڈی کھول رہی ہواور کھڑے کھڑے پاؤں متورم ہو جاتے۔آپؐ کی ساری کاوشیں،آپؐ کاپروگرام اور مشن امت کی بہتری اور فلاح کے لیے تھا۔ رسول اللہﷺ کے اس مقصد اور اُنؐ کی محبت کے اِس انداز کو سیکھنے کی کوشش کے لیے ہماری حکومت، لوگ، ادارے اور ہمارے معاشرے کواسے محسوس کرنےاورجاننے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔امیر، غریب، خواتین، بیواؤں، بچوں، غلاموں، یتیموں مسکینوں، غرض یہ کہ جانور اور پرندوں کے لیے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں کملی والےﷺ نے کوئی مثال قائم نہ کی ہو۔ آج کل ریاستِ مدینہ کا تذکرہ ہر زبان زدِ عام ہے۔ریاستِ مدینہ کی بنیاد رسول اللہﷺ نے انسانی حقوق کے استحصال کے خاتمے پر رکھی تاکہ معاشرے کے تمام انسانوں کےحقوق کسی صورت پامال نہ ہوں۔ کسی معاشرے کے تین عظیم روپ ہوتے ہیں، جس میں عدل، احسان اور ایثارشامل ہیں۔ رسولﷺ نے معاشرے کو ایثار اور احسان سے گوندھ دیا اور اعلی عدلیہ کا نظام قائم کیا۔
پاکستان میں انسانیت سے محبت کرنے والے عبدالستار ایدھی اور مالی لحاظ سے غیر مستحکم لوگوں کو بلا سود قرضے فراہم کرنے والے اخوت تنطیم کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی طرح ایسے کئی لوگوں کی کاوشوں کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔ بطورِ انسان اور معاشرے کا فرد ہونے کے ناطے ہم میں جو صاحبِ حیثیت ہیں ،یعنی جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، جو اہلِ علم ہیں یا کسی بھی لحاظ سے با قوت ہیں، وہ تمام طاقت ور لوگ کمزوروں کو ساتھ لگا سکتے ہیں۔ وہ لوگ اگر انہیں برابری کی سطح پر قابلِ احترام سمجھیں تو انسانی حقوق کا تقدس بھی قائم رہے اور اس طرح معاشرہ بھی خوشحال ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کا تقدس ، ان کی روایات کی عزت و احترام ہم سب پر لازم ہے چاہے وہ مذہبی اعتبار سے ہو، صوبائیت ، لسانیت یا کسی بھی معاشرتی مناسبت سے ہو۔ رسول اللہﷺ نے اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مابین 52 نکات پر مشتمل میثاقِ مدینہ تحریر فرماکر ایک دوسرے میں یگانگت، احترام، برداشت اور تعاون کا درس دیا۔
رسول اللہ ﷺ کے دل میں اللہ کی مخلوق اور اپنی امت کے لیے درد موجود تھا۔ میرے استادِ محترم فرماتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں اللہ کی مخلوق کے لیے احساس و درد ہو گا اور محبت ہو گی، اللہ اسے معزز کر دیتا ہے۔اورجس کے اندر درد نہیں ہے اس میں ایمان میں کمی ہے۔ ایمان کی کمی درد سے پوری ہوتی ہے۔ جب درد ہو گا ، احساس ہو گا، آپ کسی حاجت مند کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیں گے اور کر پائیں گے۔ہمیں ، بالخصوص وہ لوگ جو آج اقتدار میں ہیں یا صاحبِ اختیار ہیں انہیں چاہیئے کہ سیرت ِنبیﷺ اور ریاستِ مدینہ کا تفصیل سے مطالعہ کریں تاکہ یہ پتا لگے کہ ہر قدم پہ انسانوں کے استحصال کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔مدینہ میں فلاحی مملکت کی بنیاد کے قیام پر ظلم و نا انصافی کا قلعہ قمہ کیا گیا کہ کوئی شخص کسی پر ظلم اور کسی کے ساتھ نہیں نا انصافی نہیں کر سکتا۔ ہر حال میں ہر شہری کے جان، مال اور ناموس کوتحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی اسلامی ریاست یابا اختیار شخص اپنی اِس ذمہ داری کو نہیں نبھاتے تو وہ اللہ کی عدالت ، معاشرے ، وقت اور زمانے کےمجرم ہیں۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر چند لوگوں نے اپنے کچھ ارکانِ دین نامکمل رہ جانے پر رسول اکرمﷺسے پوچھا کہ کیا ہمارا حج قبول ہو جائے گا؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ، “تم لوگوں میں سے ماسوائے اُس کے ، سب کا حج قبول ہوا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے غیرمحفوظ رہے۔” آپؐ نے معاشرے سے انسانوں اور ان کے حقوق کے استحصال کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے یہ ایک بہترین پیغام دیا ہےکہ ہم نے رکنِ دین تو بھرپور ادا کیے ہیں لیکن اگر ہمارے زبان اور ہاتھ سے معاشرے کے کسی بھی شخص کو تکلیف پہنچی تو اللہ کے ہاں ہماراوہ عمل قبول نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہم تمام لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ اور زبان کے شر سےمحفوظ رکھےاور ایک دوسرے کے لیے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں