سات ٹون معاف ۔۔۔۔گل نوخیز اختر

یہ ایک خالصتاً مردانہ محفل تھی، ہم پانچ دوست مختلف ایشوز پر بحث کر رہے تھے۔ اچانک ایک زنانہ آواز آئی ”آئی لو یو جان‘‘۔ سب بے اختیار اچھل پڑے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن ٹی وی بھی بند تھا اور دور دور تک کوئی خاتون بھی نہیں نظر نہ آئی۔ اتنے میں یہی آواز پھر ابھری اور عقدہ کھلا کہ یہ ایک دوست کے موبائل فون سے آ رہی ہے۔ دوست نے موبائل نکالا، کچھ دیر بات کی اور مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا۔ پتا چلا کہ موصوف نے اپنی بیگم کی آواز کو رِنگ ٹون بنا رکھا ہے۔ ان کی بیگم کا جب بھی فون آتا ہے یہی پیار بھری ٹون بجنے لگتی ہے؛ تاہم وہ جب بھی فون اٹینڈ کرتے ہیں دوسری طرف سے دانت پیسنے کی آوازیں چار گز دور بیٹھے بندے کو بھی سنائی دے جاتی ہیں۔ پتا نہیں ایسے لوگوں کو کیا بیماری ہے، ایسی ایسی رِنگ ٹون لگاتے ہیں کہ سارا ماحول بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک جنازے میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیش آ گئی، کندھا بدلتے ہوئے ایک صاحب نے کلمہ شہادت کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی ان کے موبائل سے آوا ز آئی ”چٹیاں کلائیاں وے‘‘۔
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص رِنگ ٹون اس لیے لگاتے ہیں کہ پتا چل جائے‘ کس کا فون آ رہا ہے۔ میرے ایک محلے دار کے فون پر اکثر گدھے، بلی، اونٹ اور بھیڑیے کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ایک دفعہ راز پوچھا تو دانت نکال کر بولے ہر سسرالی رشتہ دار کے لیے مختلف رِنگ ٹون سیٹ کی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے موبائل سے خطرے کے سائرن کی آواز آئی، میں نے پوچھا یہ کس کا نمبر ہے؟ اطمینان سے بولے ”دکان دار کا۔‘‘
کئی لوگوں کے ایک نام والے کافی سارے لوگ ہوں تو وہ یاد دہانی کے لیے ان کا نمبر محفوظ کرتے وقت اکثر ان کا کریکٹر بھی ساتھ لکھ دیتے ہیں مثلاً اگر شہزاد نام کے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو ان کے نام کچھ یوں درج ہوں گے ”شہزاد ڈنگر، شہزاد چول، شہزاد بونگا، شہزاد منحوس، شہزاد بھوکا … وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جن لوگوں کو ہر نام کے ساتھ رنگ ٹونز لگانے کا شوق ہوتا ہے وہ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں، میرے آفس بوائے نے بھی ہر نام کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر گانوں والی رنگ ٹونز لگائی ہوئی ہیں۔ اس کی والدہ کا فون آئے تو گانا بجتا ہے ”مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘… والد صاحب کا فون آئے تو آواز آتی ہے ”پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا‘‘۔ بھائی کا فون آئے تو ”دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘ چل پڑتا ہے۔ ایک دفعہ وہ چائے بنا رہا تھا، میں نے اپنا سٹیٹس چیک کرنے کے لیے اسے بیل ماری تو آگے سے گانا چل پڑا ”نی کالا سیاہ کالا میرا کالا اے دلدار‘‘…!!!
آپ نے یقینا وہ لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو رِنگ ٹونز کے شیدائی ہوتے ہیں، ان کا اولین شوق موبائل میں نئی نئی رنگ ٹونز بھروانا ہوتا ہے ، یہ ہر دو گھنٹے بعد اپنی رِنگ ٹون بدل دیتے ہیں۔ فارغ وقت میں ان کا بہترین مشغلہ اپنے ہی موبائل کی مختلف رِنگ ٹونز سننا ہوتا ہے۔ یہ کہیں بیٹھے ہوں تو اِن کے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز ساتویں محلے تک سنائی دیتی ہے تاہم یہ فوراً ہی کال رسیو نہیں کرتے بلکہ تیس چالیس سیکنڈ تک خود بھی ٹون سننے کا مزا لیتے ہیں اور ارد گرد بیٹھے ہوئوں کو بھی ذہنی کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔ کئی نیک لوگ مذہبی کلمات کو رنگ ٹون بنانا پسند کرتے ہیں ۔ میرے ایک دوست نے ”بسم اللہ‘‘ کو اپنی رنگ ٹون بنا رکھا ہے۔ کئی دفعہ جب اس کی بیگم لڑائی کے دوران اس کے اوپر گرم گرم چائے پھینکنے لگتی ہے تو اتفاق سے کسی نہ کسی کا فون آ جاتا ہے اور چائے گرنے سے پہلے آواز آتی ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘۔ اسی طرح ایک اور دوست ہیں جنہیں ہر وقت موت یاد رہتی ہے لہٰذا انہوں نے اپنی رنگ ٹون بھی اسی کے مطابق سیٹ کی ہوئی ہے۔ موصوف نے پچھلے دنوں دوسری شادی کر لی، نکاح ہو گیا تو اچانک ان کے موبائل سے آواز آئی ”انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
اکثر لوگ میسیج کی ٹون بھی مختلف رکھنا پسند کرتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ اتنی مختلف ہو جاتی ہے کہ ساتھ والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہوا کیا ہے۔ میں ایک دفعہ آفس آنے کے لیے لفٹ میں سوار تھا کہ اچانک کتے کے بھونکنے کی زوردار آواز آئی۔ لفٹ میں سوار ہر بندے کی ہاف چیخ نکل گئی۔ پتا چلا کہ کونے والے صاحب کے موبائل پر میسیج آیا ہے۔ اسی طرح آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بھری محفل میں اچانک دروازے پر دستک کی آواز آتی ہے، یہ بھی میسیج کی ٹون ہوتی ہے۔ میرے دفتر کے ہمسائے میں ایک صاحب نے میسیج کی ٹون پر ایک خاتون کی کربناک چیخ لگا رکھی ہے ، سو کئی دفعہ ہوا کہ گاڑی چلاتے ہوئے انہوں نے شیشے کھولے، کوئی میسج آیا اور کسی قریبی راہگیر نے ان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے ون فائیو پر فون کر دیا؛ تاہم پچھلے کچھ دنوں سے مجھے چیخوں کی آواز سنائی نہیں دی۔ پتا چلا کہ انہوں نے یہ رِنگ ٹون بدل دی ہے۔ میں نے وجہ پوچھی توکھسیانے ہو کر بات بدلنے کی کوشش کی۔ میں نے زور دیا تو شرمندہ ہو کر بولے ”یار بس جمعہ پڑھنے گیا تھا اور جلدی میں موبائل کو میوٹ پر کرنا بھول گیا…!!!‘‘
موبائل کی ایک ٹون تو وہ ہوتی ہے جو آپ کی کال آنے پر آپ کے موبائل میں بجتی ہے، دوسری وہ ہوتی ہے جسے ”کالر ٹون‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ شوق شوق میں یہ ٹون لگا لی اور اس کے بعد عذاب میں پھنس گیا، دودھ والے کا بھی فون آتا تھا تو اسے میری طرف سے سنائی دیتا تھا ”بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم‘‘۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس ٹون سے چھٹکارا حاصل کر سکوں لیکن ناکام رہا، موبائل کمپنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک کوڈ بتایا کہ اِسے فلاں نمبر پر ایس ایم ایس کر دیں آپ کی کالر ٹون ختم ہو جائے گی۔ میں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا اور چیک کرنے کے لیے پی ٹی سی ایل سے اپنے نمبر پر فون کیا تو آواز آئی ”گندی بات، گندی گندی گندی بات‘‘ میرے ہاتھ پائوں پھول گئے، جلدی سے موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر دوبارہ کال کی، پینتیس منٹ تک تو کمپنی والے مجھے اپنی ریکارڈڈ آفرز سناتے رہے، بالآخر ان کے نمائندے سے بات ہوئی تو میں نے اپنی مصیبت بیان کی۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے، آپ یہ والا کوڈ ملائیں تو سکھی ہو جائیں گے۔ میں نے تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر نیا کوڈ ایس ایم ایس کر کے دھڑکتے دل سے دوبارہ اپنا نمبر ملایا۔ بہت خوشی ہوئی کہ کوئی گانا نہیں چلا البتہ کمپنی کا جوابی میسج آ گیا کہ ” آپ کی خواہش کے احترام میں آپ کی تمام کالر ٹونز ختم کر دی گئی ہیں اور اس کے عوض آپ کے اکائونٹ سے مبلغ 30 روپے جھاڑ لیے گئے ہیں اگر آپ دوبارہ یہ عذاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس میسیج کے جواب میںکچھ بھی لکھ کر بھیج دیں، انشاء اللہ ہم آپ کی زندگی اجیرن بنانے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔‘‘ میں نے فوری طور پر میسیج کیا ”پلیز میں ایسا کچھ نہیں چاہتا ، میں پہلے ہی بہت تنگ ہوں آپ کی مہربانی مجھے معاف رکھیں‘‘۔ فوراً ہی جواب آیا ”آپ کا بہت شکریہ، آپ کی فرمائش پر آپ کی تمام سابقہ ٹونز بحال کر دی گئی ہیں۔
بشکریہ دنیا نیوز!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply