محترم شہریار آفریدی سے اپیل ۔۔۔ محمد غیاث سردار

عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کرتے ہے۔ حکومت بقیہ امور کے علاوہ عوام کی جان و مال کی محافظ بھی ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک خطیر رقم پولیس اہلکاروں کو اس بات کے عوض ادا کی جاتی ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کے محافظ بنیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس فرض سے پاکستان پولیس کو استثناء حاصل ہے۔ وہ کیسے؟ بتلاتے ہیں   

8 دسمبر کی سحر، دسمبر کی سخت سردی اور اسلام آباد پولیس کا سرچ آپریشن۔ تھانہ کورال اسلام آباد کے ایس ایچ او نے صبح غالباََ تین بجے سے تین بج کہ بیس منٹ پہ مسلح ساتھیوں سمیت  مین گیٹ کو پھلانگ کر سرچ آپریشن گھر میں موجود افراد کو پر تششدد انداز میں نیند سے بیدار کرنے سے شروع کیا۔ عام طور پر پاکستانی پولیس ڈنڈا بردار جانی جاتی ہے پر ان بیس سے پچیس افراد کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور پسٹل ہی تھے۔ پہلے پہل تو لگا کہ یقیناً یہ کوئی ڈاکو ہیں یا پھر دہشت گرد ، یہ تو بھلا ہو ان کے بڑے بوٹوں کا جن سے پہچان پائے کہ یہ کوئی پولیس اہلکار ہیں۔ تاہم کسی بھی طور طریقے سے وہ پولیس اہلکار معلوم نہ ہوتے بلکہ ان کا رویہ ان کے انسان ہونے کی نفی میں بھر پور دلیل تھی۔ 

 خیر جب تک نیند سے جان چھڑائی گئی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ شاید ہم دہشت گرد یا اس سے بھی کسی گھناؤنے جرم میں مطلوب تھے جو ہماری کن پٹی پہ بندوق رکھے سب افراد کو یرغمال بنا چکے تھے۔ ابھی تک یہ بات عیاں نہیں ہوئی تھی کہ اس سرچ آپریشن کی فائنڈنگ آؤٹ کیا ہے؟ سرچ وارنٹ کس کے پاس ہیں؟ یا مجسٹریٹ کوساتھ لائے ہیں؟

جناب ایس ایچ او صاحب آپ نے تین سے زائد فیملی والے گھروں کو سرچ کرنا تھا پھر آپ لیڈی پولیس عملہ ساتھ کیوں نہیں لائے؟ 

گیٹ کو پھلانگنا اور یوں پر تشدد انداز میں اٹھانا اور پھر یرغمال بنانا، اب سوچنے پر کسی فلم کا ایکشن سین معلوم ہوتا ہے جس کا مرکزی کردار بد قسمتی سے ایک انتہائی بے کردار شخص کے ہاتھ لگ گیا ہو اور اس کے ساتھی بھی ہو بہو اسی کے نقش پہ ہوں۔ 

افراد سے ان کا نام تک نہ پوچھا گیا اور نہ ہی یرغمال بنائے گئے افراد کی شناخت کا تقاضا کیا گیا۔ یہ تو بتانا شاید ان کی توہین ہوتی کہ ڈھونڈ کیا رہے ہیں؟ گھر کو کباڑ خانہ بنانے کے بعد جو اشیاء ان کے پاس تھیں وہ موبائل فون اور پرس تھے۔ ان کی بابت دریافت کیا گیا کہ اتنے موبائل کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ ایک سوال کا ہم سب سے جواب لیا گیا کہ آپ کا فون نمبر کیا ہے؟

 کیا اس بات کے لیے یہ سرچ آپریشن کیا گیا کہ آپ نے موبائل کیوں رکھا ہوا ہے؟ یا پھر اس بات کے لیے کہ ہمارے فون نمبر کیا ہیں؟

 اگر کچھ اور تھا تو بتایا کیوں نہیں گیا؟ وارنٹ کیوں نہیں جاری کیے گئے؟ آئینی و اخلاقی حدود کو کیوں پاؤں تلے روندا گیا؟ کیا یہ قانون سے بڑے لوگ ہیں جو اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے؟ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو کیوں پامال کیا گیا؟ افراد کو یرغمال کیوں بنایا گیا جبکہ ہم مزاحمت تو درکنار دور ایسی سوچ بھی ذہن میں نہ لا سکے؟

اب اس پولیس سے جو میری اور آپ کی جان و مال کی محافظ ہے ہم خوف نا کھائیں تو کیا کریں؟ کیا میں ان کو اپنی جان و مال کا محافظ سمجھ کر ان پر بھروسہ کروں؟

Advertisements
julia rana solicitors

 جناب شہریار آفریدی صاحب اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد (IG) کو اس واقعہ کی کمپلین کر دی جا چکی ہے۔ امید ہے نوٹس لیا جائے گا اور ایس ایچ او تھانہ کورال اسلام آباد (SHO POLICE STATION KORAL) سے جواب طلبی کی جائے گی۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply