ہمارے پنڈ میں لاوڈ اسپیکر آیا تو تبدیلی آ گئی۔ یوں تو لاوڈ اسپیکر مسجد میں نصب تھا لیکن گاوں کے ہر کام ہر رابطے کے لئے گویا گاؤں نے نیا کاما رکھ لیا تھا۔ قصائی نے ڈھول بجا کر کٹا وچھا زبح کرنے کا اعلان ترک کیا اور اسپیکر پر ایسے اعلان ہونے لگے۔ حضرات کل یوسو قصائی کٹا زبح کرے گا گوشت لینے کے لئے پیسے لے کر اس کی دکان پر آجائیں۔ پنڈ میں کپڑا بیچنے والا آ جاتا۔ کسی نے فصل کی کٹائی شروع کرنا ہوتی، کسی کے لڑکے کا عقیقہ ہوتا یا منگنی کے کھانے کا ُبلاوا ہوتا، کسی کی لڑکی کی شادی ہو اور بارات کا انتظام ہوتا کسی کی بکری، مرغی گم ہو جاتی، غرض سب کاموں کے لئے اسپیکر ہی سب کا رابطہ کار تھا۔
یہ نہ سمجھیں کہ مسجد کا کام اس سے نہیں لیا جاتا تھا۔ اذان، درود، دعا، مرگ کا اعلان سب اسپیکر پر ہی ہوتے تھے۔ ہر جمعرات اور ہر چاند کی گیارھویں تاریخ کو ختم شریف کے انتظام کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے بھی اسپیکر استعمال ہوتا تھا۔ یہ کچھ لمبی ٹرانسمیشن ہوتی تھی جس کے لئے مولوی صاحب کے ہمراہ سب بچے بھی شامل ہوتے جو قرآن پاک پڑھتے تھے۔ بچوں کو اسپیکر پر نعتیں پڑھنے اور زبانی یاد سورتیں سنانے کا موقع ملتا۔ اس کے لئے بچے اپنے گھروں سے ختم شریف کے لئے خصوصی حصہ لے کر آتے تھے۔ گاؤں سے لوگ گندم، چاول، گُڑ، مرغیوں کے انڈے اور نقدی بھیجتے۔ مولوی صاحب ہر آنے والے چندہ کا اسپیکر میں بھیجنے والے گھرانے کے جملہ افراد کا نام لے کر دعایئہ اعلان کرتے۔ جو لوگ جنت، دودھ کی نہروں اور حوروں کے حصول میں سنجیدہ نہ ہوتے ان کے لئے مولوی صاحب دوسرا حربہ استعمال کرتے، ان کے مرحومین کی ممکنہ خراب حالت کا پُر اثر بیان کرتے اور انہیں مرحومین کی نجات کا انتظام کرنے کے لئے جھنجھوڑتے۔ ختم شریف میں براہ راست استعمال ہونے والی اشیاء کو رکھ لیا جاتا اور باقی چیزوں کو گاؤں کے واحد جنرل اسٹور پر بیچ کر نقدی حاصل کر لی جاتی تا کہ مناسب جگہ پر کام میں لائی جا سکے۔
ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو فٹ بال اور کرکٹ کھیلنے کے لئے قریبی گراونڈ میں چلے جاتے۔ یہ گراونڈ کریسچین کمپلیکس میں تھی۔ وہاں بہت سے عیسائی لڑکے ہمارے دوست بن گئے۔ اتوار کو کھیلنے جاتے تو اسی کمپلیکس میں واقع گرجا میں ان کی عبادت چل رہی ہوتی۔ کبھی یہاں دعائیہ تقریب ہوتی تو کبھی شفایئہ سروس۔ ہر دفعہ عبادت کے آخر میں دعا سے پہلے ایک تنگ منہ والی کپڑے کی تھیلی ہر ایک کے پاس پہنچائی جاتی جس میں سب رازداری کو قائم رکھنے کے لئے مٹھی میں بند پیسے ڈالنے کے لئے ہاتھ داخل کیا جاتا اور پھر پیسے چھوڑ کر ہاتھ باہر آجاتا۔ بس یہیں ہمارے کچھ دوست خداوند سے براہ راست وصولی کرنے کے لئے سکہ مٹھی میں دبا کر ہاتھ تھیلی میں ڈالتے اور رازداری والا یہ ہاتھ سکے مٹھی میں دبا کر باہر نکال لیتے۔ ہم لوگ ان کی سرزنش کرتے تو وہ کہتے ہم دعایئہ اور شفایئہ تقریب میں چندہ ڈال کر پادری سے سب گناہ بخشوا لیں گے۔
گناہ بخشوانے کی فکر تو ہمیں بھی لاحق رہتی تھی۔ ختم شریف میں حصہ ڈال کر گویا گارنٹی والا ٹوکن مل جاتا تھا کہ اب خیر ہے۔ خاص طور پر ان ماہر کاریگروں کو جو مسجد کی دیوار میں نصب لوہے کے ڈبے سے پیسے نکالنے کا ہنر جانتے تھے۔اس ڈبے کو تالا لگا ہوتا تھا اور صرف ایک ہی سوراخ پیسے ڈالنے کے لئے ہوتا۔ اس میں سے سکے نہیں نکل سکتے تھے، البتہ کاغذ کے نوٹ ماہرانہ طریقے سے موڑی ہوئی لوہے کی تاروں کے زریعے نکالے جاتے تھے۔اس کاروائی کے لئے باجماعت ایکشن ہوتا، سب دیوار کے آگے اس طرح کھڑے ہو کر باتیں کرتے کہ ماہر چور بھی نظر نہ آئے اور کسی کو شک بھی نہ ہو۔ ختم شریف میں حصہ ڈالنے کے لئے پڑولے سے گندم لا کر گناہ بخشوانے کا کام سب پورے خشوع خضوع کیساتھ کرتے تھے۔
آج خوشی ہوئی کہ گناہ بخشوانے کی ذمہ داری اب پادری اور مولوی صاحب کے ساتھ حکومت نے بھی اٹھا لی ہے۔ ابتدائی طور ہر تمباکو نوشی کا گناہ معاف کرانے کا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ آپ بس گناہ ٹیکس ادا کریں اور مزے سے دھویں کے مرغوبے ہوا میں اڑائیں۔ اس عظیم نیک کام کی تشہیر کے لئے میڈیا ہی لاوڈ اسپیکر ہے اور اس قانون کو سوشل میڈیا کا ڈھول پیٹ کر گلی گلی گھر گھر پہنچایا گیا ہے۔ ہمیں شکرگزار ہونا چاہیئے کہ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے حکومت نے ذمہ داری لینا شروع کی ہے۔ امید ہے کہ جلد دیگر اقسام کے گناہوں کی بخشش کے لئے بھی گناہ ٹیکس کی شرح اور طریقہ ادائیگی کا اعلان ہوگا۔
نیا پاکستان اور مدینہ کی ریاست ہماری حکومت کا خواب ہے۔ کیا آپ اسکے لئے گناہ ٹیکس نہیں دیں گے؟
کیا آپ کو بخشش نہیں چاہیئے؟
Facebook Comments
ساجد مہر صاحب آپ نے ٹھیک سمجھا نہیں سگرٹ پر گناہ ٹیکس سگرٹ خریدنے اور پینے پر لگایا ہے گناہ بخشوانے کے۔لیےء تو اللہ کی عدالت میں جانا خوگا کسی کا کیا گنا ہ کوئ دوسرا کیسے بخشوا سکتا ہے