• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • (منظُور پشتین سے خصوصی مکالمہ) کیا میں غدار ہوں؟۔۔۔۔۔۔ عارف خٹک

(منظُور پشتین سے خصوصی مکالمہ) کیا میں غدار ہوں؟۔۔۔۔۔۔ عارف خٹک

مکالمہ ایگزیکٹو ممبر اور معروف لکھاری محترم عارف خٹک نے منظور پشتین کا خصوصی انٹرویو کیا ہے جو مکالمہ قارئین کے لئیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مکالمہ ہی تمام مسائل کا پرامن اور بہترین حل ہے۔ ادارہ

منظور پشتین ایک پچیس سالہ پشتون نوجوان ہے۔سال بھر پہلے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائےعدالت قتل نے جہاں سارے کراچی کو لرزا کے رکھ دیا، وہاں پورے پاکستان میں سوالات سر اُٹھانے لگے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سویلینز آبادیوں میں پولیس کے کچھ مخصوص انکاونٹر اسپیشلسٹ اور اُن کی کارکردگیوں پر انگلیاں اُٹھنے لگیں۔
‎ایسے میں پشتون محسود قبیلے کا یہ نوجوان اُٹھا۔جس نے آئین اور حقوق کی بات کی۔مگر اپنے سخت لہجے سمیت دو ٹوک مؤقف نے انھیں پاکستان کے کافی سنجیدہ حلقوں میں مشکوک ٹھرایا۔
‎اسی کے ساتھ مختلف پراپیگنڈوں اور تحریک میں موجود کچھ قوتوں نے پشتون نوجوانوں کو بھی کنفیوز کرنا شروع کردیا، تو مُجھے لگا،کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندی ہونے کی وجہ سے منظور پشتین کو پُراسرار رکھا گیا۔
‎کراچی میں ہوئی ایک غیر روایتی نشست میں ہم نے منظور پشتین کے سامنے وہ سوالات رکھے۔جو ایک عام پاکستانی کے سوالات ہیں۔

اس نشست میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی مشہور شخصیت عابد آفریدی اور صہیب جمال نے اور مہمان خصوصی ہیں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما جناب منظور پشتین صاحب۔

سوال: پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں اس وقت ایک عام پاکستانی خدشات کا شکار ہے۔کہ شاید یہ “اینٹی پاکستان” تحریک ہے۔ آپ اس خدشے کا  دفاع کیسے کریں گے؟۔
منظور پشتین:خٹک صاحب اس وقت ہم سب انہی خدشات کا شکار ہیں۔ اس وقت ہم سب ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے جہاں اذہان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کیا گیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے، جہاں آئینی حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ جہاں ریاست کی طرف سے دی گئی آزادی کی بات ہوتی ہے، جہاں مظلوم عوام کی بات ہوتی ہے۔ اگر آپ میرے آنسوؤں کو پونچھنے کی بجائے بنا بنایا بیانیہ داغ دیں کہ میں ملک مخالف سرگرمیوں کی بات کررہا ہوں تو رکئیے، ذرا میرے مطالبات پر نظر دوڑائیں کہ آیا میں جو مطالبات کررہا ہوں،وہ غیر آئینی ہیں؟۔
‎میری تنظیم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں افغانستان کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ میں اَمن کا مقدمہ لڑ رہا ہوں جو ہر محّبِ وطن پاکستانی لڑ رہا ہے۔کیوں کہ پاکستان میں امن افغانستان سے مشروط ہے۔اگر میں غلط ہوں تو کیا پاکستان کے اکیس کروڑ عوام غلط ہیں؟۔ میں تو آپ سے یہ مُطالبہ کرتا ہوں کہ آئین نے جو حقوق دیئے ہیں اسے آپ برطانوی کالونیل قانون کے تحت غصب کررہے ہیں۔ آج میرے پانچ کروڑ پشتون بچوں کے سکولوں کو بم سے اُڑا دیا گیا ہے، میرے گھر مسمار کر دیئے گئے ہیں، میری آنے والی نسل کو جہالت کے اندھیروں سے دھکیلا جارہا ہے، میں ان کو بچانے کےلئے اُٹھا ہوں تو کیا یہ ملک دشمنی ہے؟

سوال: دیکھا گیا ہے،کہ آج وہ افراد بھی آپ کے پاس جمع ہوچکے ہیں جو پاکستان مُخالف نظریات کے حامل ہیں اور فوج کی آڑ میں وہ پاکستان کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پی ٹی ایم کا کاندھا استعمال کررہے ہیں۔ اِن کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟۔

منظور پشتین: پی ٹی ایم مظلوموں کی ایک غیر سیاسی جماعت ہے۔ جہاں پِسا ہوا مظلوم طبقہ اپنے حقوق کی بات کررہا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا میکینزم نہیں ہے کہ ان قوّتوں کو پہچان کر ہم ان کی اصلاح کریں یا پھر انھیں روک سکیں۔ یہ ان کے ذاتی نظریات ہوسکتے ہیں جس سے پی ٹی ایم کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ہم نے ایک پلیٹ فارم سے اگر آواز اٹھائی ہے اور کسی نے ہماری آواز کےساتھ آواز ملا کر اپنی بات کہی ہے، تو تنظیم اس کی ہر بات کی ذمّہ دار نہیں ہے۔ ہم نے تنظیم سازی پر کام شروع کیا ہوا ہے جہاں سنجیدہ اور مُخلص لوگوں کو آگے لےکر آرہے ہیں۔ اب اگر کوئی لبرل ہے یا بائیں بازو کی سیاست کررہا ہے تو یہ اس کے ذاتی نظریات ہوسکتے ہیں۔ مگر پی ٹی ایم کا ایجنڈا کسی کو ہائی جیک نہیں کرنے دیا جائے گا۔

سوال: آپ کی تنظیم میں موجُود کچھ لوگوں نے حالیہ واقعے یعنی مولانا سمیع الحق کی شہادت کے حوالے انتہائی منفی رویہ اپنایا۔ جس سے یہ تاثر اُبھرا،کہ پی ٹی ایم میں ملحدانہ سوچ رکھنے والوں کی اجارہ داری ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

منظور پشتین: میں نے پہلے بھی واضح کردیا ہے کہ نظریات کسی کے بھی ذاتی ہوسکتے ہیں۔ ہم پشتون بُنیادی طور مذہب پسند لوگ ہیں۔ میں خود پنج وقتہ جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھتا ہوں۔ علماء میرے اساتذہ ہیں۔ مولانا سمیع الحق شہید کے بارے میں مُجھے جب پی ٹی ایم میں موجود کچھ عناصر کا معلوم ہوا تو میں نے فوراً ایسے عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔میں خود مولانا صاحب کے مدرسے اکوڑہ خٹک گیا ہوں اور ان کے بیٹے سے تعزیت کی ہے۔ مولانا مرحوم مُجھ سے خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ اب اگر میری تنظیم کو افغانستان میں موجُود لوگ سپورٹ کرتے ہیں یا دنیا کے مظلوم طبقوں میں تنظیم کو پذیرائی مل رہی ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ میں انسانی حقوق کی بات کررہا ہوں اور انسانی حقوق کی بات موجودہ دور میں کرنا بذات خود ایک بُہت بڑا امتحان ہوتا ہے۔

سوال: پاکستان فوج کی اتنی مخالفت کی وجہ کیا ہے؟

منظور پشتین: فوج اس وقت ریاست کا سب سے بڑا اور منّظم ادارہ ہے۔ 9/11 سے پہلے یا بعد میں فوج کی براہ راست فاٹا میں عملداری رہی ہے۔ مُجھے ان سے شکایت ہے کہ جب یہی مسلح تنظیمیں اُس وقت پھل پُھول رہی تھی تو تب آپ نے اپنی آنکھیں بند کر رکھیں۔اور بالآخر ان کو بہانہ بنا کر فاٹا کے لوگوں کو ایک انسانی المیے کا شکار کرڈالا۔ تاریخ کی سب سے بڑی مائیگریشن ہوئی، لوگوں کے گھر بار لُٹ گئے، اُنہوں نے اپنے مال مویشی تک چھوڑ دیئے۔ دوسروں شہروں میں جاکر ان کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھا گیا، سکول تباہ ہوگئے، انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ اس تمام بربادی کی ذمہ داری براہ راست اس منظم ادارے کے کاندھوں پر آتی ہے۔ میں کوئی الگ ملک کا مطالبہ نہیں کررہا بلکہ ریاست سے فقط اتنا کہہ رہا ہوں کہ مظلوموں کے ساتھ کئے گئے ظلم و زیادتی کو قبول کریں اور ضمانت دیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اگر آج میں اپنے آنسو پونچھنے کی بات کررہا ہوں اور آپ مجھ پر ریاست مُخالف ہونے کا الزام لگارہے ہیں تو آپ یہ مجھ پر بہت بڑا ظلم کررہے ہیں۔

سوال: اس وقت بلوچ، سندھی، پنجابی اور دوسرے اقوام کو چھوڑ کر آپ صرف پشتون کی بات کررہے ہیں۔کیا اس تنظیم پر فقط پشتونوں کا حق ہے؟۔

منظور پشتین: ہرگز نہیں۔ پی ٹی ایم کےلئےاس وقت فاٹا اور پشتون مسائل کو اُجاگر کرنا ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ہم نے پہلے دن سے ہی واضح کیا ہے کہ یہ تنظیم کسی مخصوص قوم یا زبان کی تنظیم نہیں ہے۔ یہ مظلوموں کی آواز کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے میں مددگار ثابت ہورہی ہے۔ میں انشاءاللہ تنظیم سازی سے فارغ ہوکر دوسری اقوام سے بھی مکالمہ کروں گا۔ میں عوام کو بتانے اور سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ خدارا اس پروپیگنڈے کا شکار ہر گز نہ ہوں کہ ہم خدانخواستہ ملک دُشمن لوگ ہیں۔ ہمارا ہر مطالبہ آئینی ہے۔ ہم مسنگ پرسنز کی بات کررہے ہیں، ہم ماورائے عدالت قتل کی مخالفت کررہے ہیں، ہم جوڈیشل آذادی کی بات کررہے ہیں کہ ان سب جرائم کی تحقیقات کریں۔ ہم بلوچ کی ناراضگی کی بھی بات کررہے ہیں، ہم کراچی میں ماورائے عدالت پولیس کلنگز کی بات کررہے ہیں، ہم ایجنسیوں کی خطرناک مداخلت کی بھی بات کررہے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ ہم کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے عدم تشدد کی بات کرکے پاکستان میں رہنے والی ساری اقوام کو یکساں انصاف دینے کی بات کررہے ہیں۔

‎سوال: علی وزیر کی حالیہ تقریر جس میں واضح طور پر فوج کو اشارہ کرکے دھمکیاں دی گئیں۔ وہ تقریر آپ کےلئے مسائل پیدا کرسکتی ہیں؟۔

منظور پشتین: علی وزیر نے باپ بھائی اور خاندان کے چودہ خونی رشتوں کو کھویا ہے۔ آپ اُس کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ علی وزیر نے ریاست یا فوج کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے بلکہ اُس نے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ وہ رو رہا ہے۔اُس کا حق ہے کہ وہ اپنی بے بسی کا رونا روئے۔ اگر جذبات میں آکر اس نے کچھ سخت سُست بول بھی دیا ہے تو اس پر غداری کا لیبل چپکانے سے پہلے آپ کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا کہ اُس کی باتوں کی سچائی اور اس کےساتھ کی گئی ناانصافی نے اسے پھر بھی باغی نہیں بنایا۔ آج وہ ہی علی وزیر ہے جس کو پاکستان کی پارلیمان میں عوام نے اپنے نمائندے کے طور پر بٹھایا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ کیا ایک غدار یا ریاست مخالف پارلیمان کا ممبر بن سکتا ہے؟
‎یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ایک میز پر دو بندے آمنے سامنے بیٹھے ہوں۔ تو میز پر لکھا ہوا 6 دوسرے کو 9 نظر آئےگا۔ یہ پوائنٹ آف ویو ہوتا ہے۔ غلط دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے، بس یہ سمجھنا پڑےگا کہ لکھے ہوئے کو کیا پڑھنا ہے۔

‎سوال: ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کی تنظیم سے ساری سیاسی جماعتیں خائف ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

منظور پشتین: میرے لئے سب سیاسی رہنما قابل احترام ہیں۔ اگر آج میرے ساتھ کھڑا نوجوان کسی سیاسی جماعت کا ہے تو میں اسے خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرے ساتھ اس کارواں میں قوم پرست جماعتوں کے کارکنان ہیں، میرے ساتھ لبرل سیاسی جماعتوں کے کارکنان کھڑے ہیں، میرے ساتھ مذہبی جماعتوں کے کارکنان موجود ہیں اور میرے ساتھ کالج یونیورسٹیوں کے طلباء شامل ہیں۔ میرے پاس چھوٹے چھوٹے بچے اپنے گمشدہ باپ بھائیوں کی تصاویر گلے میں لٹکائے نم انکھوں سے مجھ سے امید لگائے ہوے آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مجھے کسی سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے۔ میرے ساتھ اس کارواں میں پنجابی بھی ہیں، سندھی بھی ہیں اور بلوچ بھی ہیں، کراچی کا اردو بولنے والا بھی ہے۔ میں پہلے بھی واضح کرچکا ہوں کہ میری تنظیم غیر سیاسی ہے اور میرا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ مُجھے انتخابات نہیں لڑنے، نہ مُجھے ہجوم کی ضرورت ہے۔ میرا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ میں انصاف کی لڑائی لڑ رہا ہوں۔ میں ایک ایسی لڑائی لڑ رہا ہوں جس میں تشدد اور نفرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (ہنستے ہوئے)۔
‎یہ سب سیاستدان میرے بڑے ہیں۔ مُجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر یہ سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ پی ٹی ایم کسی تنظیم کا نہیں، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ ایک ایسی سوچ جہاں انصاف ملے، جہاں مساوی حقوق کی بات ہو، جہاں کوئی ایک طبقہ کسی دوسرے طبقےکا استحصال نہیں کررہا ہو۔

سوال: اس وقت پی ٹی ایم پر میڈیا میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے۔ کیا اس سے آپ کی تنظیم پر کوئی اثر پڑ رہا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

منظور پشتین: مجھے حیرت ہورہی ہے کہ اس ملک کا باشندہ ہوکر مجھے شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اگر میری کہی ہوئی باتیں اتنی خطرناک ہیں کہ آپ نے میڈیا کو مکمل طور پر پابند کیا ہوا ہے کہ وہ مجھ پر کوئی بات نہیں کرسکتے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ آپ کو خوف ہے۔ اگر اپ کو لگتا ہے کہ یوں کل کوئی بھی اُٹھ کر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرےگا، تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ کیونکہ دنیا بدل رہی ہے، حالات بدل رہے ہیں اور زبردستی کی پالیسی اب کمزور ہوتی جارہی ہے۔مفادات کی ایک سرخ لکیر دنیا کراس کر چکی ہے۔اور آج اگر صرف ایک صحافی کےقتل کی وجہ سے منصوبہ ساز گڑبڑا گئے ہیں تو اس تبدیلی کو آپ کو بھی قبول کرنا ہوگا۔
‎صحافی طبقہ پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ اب وہ بھی ان زیادتیوں کے خلاف کُھل کر سامنے آرہے ہیں۔ میرے کوئی سیاسی مفادات نہیں ہیں، کہ میں میڈیا کا محتاج رہوں۔ میں امن کی بات کررہا ہوں، انصاف کی بات کررہا ہوں، برابری کی بات کررہا ہوں اور شعور دے رہا ہوں ان مظلوموں کو، تاکہ ان کو اندازہ ہوجائے کہ اب وہ بے زبان و بے آسرا نہیں ہیں۔ ان کو اپنے حق کےلئے بولنا اور کھڑا ہونا سکھا رہا ہوں۔ بس یہی میرا مشن ہے کہ ایک پُر امن پاکستان جہاں ہر مذہب، قوم اور سماج مکمل طور پر اپنے حقوق کےساتھ زندگی گزاریں اور میں اس میں کامیاب ہوچکا ہوں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”(منظُور پشتین سے خصوصی مکالمہ) کیا میں غدار ہوں؟۔۔۔۔۔۔ عارف خٹک

  1. منظور پشتین اگر آپکا صرف وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہیں کسی ادارے نے مارا ہو وہ کہاں ہیں جن کو وزیرستان میں پالےگئے سی آئی اے کے دہشتگردوں نے مارا سیکڑوں بم دھماکہ ہزاروں معصوموں پاکستانی شہید کیئے گئے آپ سے گلا ہے آپ نکا نام تک نہیں لیتے مارا تو انہوں نے تھا پہلے پھر ان کے خلاف اپریشن کیا گیا اور آپ بات کرتے ہو پشتون علاقوں میں ہی کیوں تو یہ بھی تو دیکھیں جہاں دہشتگرد جتنے تھے اس ہی حساب سے آپریشن کیئے گئے ملک میں جو نقصان ہو رہا تھا اس کا کوئی حل تو نکالنا تھا اگر وزیرستان کے لوگوں نے قربانیاں دیں تو اس سے قبل ملک بھر کے لوگوں نے جانیں دیں ہم ان کی قربانیوں کو سہراتے ہیں لیکن اس کا مطلب قتع یہ نہیں کے غلط مطالبات مان کیئے جائیں

    1. . Dear ye cia ya raw ya mosad ye yahan tak pohenche kse jahan tak muje maloom ha hamari isi dunya ki best intelligence agencie ha or dosri bat cia ko barherast war on yerror k nam pr yahan tak rasaie di gaie unhen base farham kie gaie nato ki tasrsel yaha se hoti rahe hame te yehi gilla ha k national intrest me hamara istemal howa ha or iski talafi ki jaye a

  2. محترمہ عائشہ حسین صاحبہ۔۔۔۔کیا آپ بتا سکتی ہے کہ اس پندرہ سالہ جنگ میں پشتونوں کے علاواہ کون لوگ مارے جاچکے ہیں؟ بتا سکتی ہے کہ پشتون بلوچوں کے علاوا کتنے پنجابی مسنگ ہیں؟ آپ اگر فیس بک کی فلاسفری سے باہر نکل آئے تو معلوم پڑھ جائگا کہ پاکستان میں اب تک کی سب سے بڑی جنگ بھی ہوچکی ہے جو 12 بارہ سال تک چلتی رہی اور آج تک اثرات پڑھ رہے ہیں ستر ہزار مکانوں کو منہدم کیا گیا ہے پورے پورے بازاروں کو ملیامیٹ کرکے وہاں برائے نام پارکس بنائے گیے ہیں ہر بازار میں تین تین ہزار سے زیادہ سامان سے بھری دکانیں تھی تمام کےتمام گھر جو گرائے گیے ہیں پہلے ٹرک بھر بھر کے لاکھوں کروڑوں کے سامان سے خالی کرائے گیے جسکا بہت ہی واضح اور صاف مطلب یہی ہےکہ یہ سب کچھ جنگ کے دوران نہیں بلکہ بہت ہی آرام سے چائےپیتے چوری کیا گیا ہے۔۔۔ دس سال تک فاٹا کے لوگ دربدر زندگی گزارتےرہے AC روم میں بیٹھ کے کہنا بہت آسان ہے چھوٹے چھوٹے بچے تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرتے رہے 80 ہزار بچے بغیرتعلیم کے جوان ہوے 8000 لوگوں کو فروخت کردیا گیا 1500 مشران کو چون چون کے شہید کردیا گیا 800 سے زیادہ نوجوانوں کو صرف اسلیے شہید کیا گیا تاکہ دنیا کو دہشت گرد دکھاسکے سوات کی ویڈیو سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟ جس میں 12 بچوں کو لائن میں کھڑا کرکے ماردیا جاتا ہے جن میں سے کسی کی بھی عمر 15 سال سے زیادہ نہیں ہیں۔۔۔اور تم جیسے لوگ ہی تھے جنہوں نے بنگالیوں کیلے بھی ایسی ہی سوچ رکھی تھی اور حشر پہ آج تک شرمندہ ہو پر شرمیندہ بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جن میں شرم اور انسانیت ہو۔۔۔

  3. عائشہ حسین صاحبہ منظور نے تو بہت واضح بتایا کہ 9/11 کے بعد فاٹا پہ فوج کی ہی عملداری رہی ۔ جس دوران یہ تنظیمیں بن رہی تھی فوج نے اسی وقت کیوں ایکشن نہ لیا ۔ ان کی غفلت کی وجہ سے ہی یہ تنظیمیں اس قابل ہوئیں کہ پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بنے ورنہ اگر ان کا بروقت علاج کیا جاتا تو کیسے وہ اتنے منظم اور مظبوط بنتے ۔۔ لہذا ان تنظیموں کے ہاتھوں شہید کیے ہوئے عوام کی خون بھی پاک فوج کے ہاتھوں تلاش کیا جائے

Leave a Reply to احسان خان Cancel reply