دہشت گردی کی جنگ کی مختصر سیاسی تاریخ۔۔۔۔نصیر اللہ چوہدری

پاکستان کو برٹش انڈیا سے آزادی ملی ہوئے اکہتر سال ہونے کو آئے ہیں لیکن حالات اب بھی قابل تشویش ہیں۔ کبھی لسانیت اور کبھی صوبائیت سے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی دخل اندازی کا ذکر یہاں پر کرنا مقصود نہیں۔ مملکتِ خداداد میں ہمہ وقت جنگ کی سی صورتحال ہے۔ کھیل اور جنگ کے میدان میں کھلاڑی نفسیاتی حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ مخالف کھلاڑی مختلف قسم کے ہتھکنڈوں سے بعض اوقات جیت جاتا ہے۔ ان میدانوں میں کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کو زِچ کرنا ایک طرح سے انفرادی جیت اور ہار ہوتا ہے، جب کہ اس کے برعکس سیاسی اور جنگی معاملات میں مخالف کا شکست سے دوچار ہونے کا عمل بعض اوقات قوم کی ناکامی اور بدنامی پر منتج ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جو کوئی ملکِ خداد کی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، اس کے لیے دقیق نظر کی ضرورت نہیں۔
قارئین، جب سے برٹش انڈیا سے آزادی ملی ہے ان لوگوں نے نو آزاد ملک کو تسلیم کیا اور اس کے معاملات میں دخل نہ دینے کا تہیہ کرلیا۔ اس وقت انڈیا کے اپنے داخلی چیلنج تھے، جن میں سرِفہرست جمہوریت کا نظام قائم کرنا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں چالیس سال تک جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ دوسری طرف موروثی سیاست اس ملک کا خاصا بن گئی۔ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا مال سیاست کے راستے جائز بنایا گیا۔ اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے تھا؟ کسی بھی ملک کی ترقی، اس کی معیشت اور سیاست سے وابستہ ہوتی ہے۔ معیشت کی انڈسٹری اور زراعت کو کارآمد بنایا جاسکتا تھا، لیکن اس کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔ یہ بھی درست ہے کہ ادارے ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے ملکی اداروں کو اونے پونے بیچ دیا۔ ’’پرائیوٹایزیشن کا عمل جاری و ساری ہے۔ ستّر اوراسّی کی دہائی میں د و سپر پاؤر ’’روس اور امریکہ‘‘ سرد جنگ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی سرزمین میں کود گئے۔ سوویت یونین وہاں اپنی پوری معیشت گنوا بیٹھی۔ پاکستان نے امریکن اتحادی کے طور پر جنگ میں روس کے خلاف ملکی اور غیر ملکی جہادیوں کے ذریعے حصہ لیا۔ جہادی بیانیہ مرتب کرنے کے لیے امریکی تعاون سے لاکھوں کتابیں چھاپی گئیں۔ یوں مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا عنصر پورے معاشرے میں سرایت کر گیا اور اب تک ان کے اثرات ہمیں ستاتے ہیں۔ اقتصاد درگور ہوا اور جنگی جنون کے حامل افراد والا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ تحفے میں مل گیا۔ دوسری مرتبہ پھر دوہزار دو میں وہی امریکہ اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان پر چھڑائی کرنے اور القاعدہ سے نبٹنے کے لیے پاکستان کے بری اور فضائی راستے پہنچ گیا۔ افغانستان کے کوہساروں اور شہروں پر بی باون جنگی جہازوں سے ’’ڈیزی کٹر‘‘ کی بمباریاں کرکے خون کو پانی کی طرح بہایا گیا۔ دو دہائیوں سے مرحلہ وار جنگ جاری ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ افغانستان میں کچھ نہ کچھ حد تک انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے ہوا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں امریکہ نے اتحادی افواج کے زیر سایہ لاکھوں افراد کو شہید اور لاکھوں کو بیوہ اور یتیم کردیا ہے، لیکن اب امریکہ کو ماننا پڑ رہا ہے کہ افغانستان میں وہ پوری طرح طالبان سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ہوئے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت اب بھی محسوس ہوتی ہے۔ کیوں کہ امن و امان کا امریکن خواب پورا نہیں ہوا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی طرح افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے واپس جانے کے لیے محفوظ راستہ چاہتا ہے، تاکہ کی گئی انوسٹمنٹ دوبارہ خراب نہ ہو۔ حالیہ دور میں روس، چائنہ، پاکستان اورقطروغیرہ میں مذاکرات ہوئے ہیں ، جن کا نتیجہ ایک دو جگہوں کے علاوہ کچھ اچھا نہیں آیا ہے۔ انڈیا بھی اس مذاکرات سے اور افغانستا ن میں اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ یاد رہے افغانی طالبان کے دو ہی مطالبے ہیں، وہ کہتے ہے کہ امریکہ غیر مشروط طور پر افغانستان کو چھوڑ جائے اور افغان گورنمنٹ میں اس کو حصہ داری دی جائے۔
دوسری طرف امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ ٹویٹ پیغام میں کہا کہ پاکستان نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا اور افغانستان جنگ میں کوئی خاطر خوا ہ قربانی نہیں دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ الٹا دھوکے اور ڈبل گیم کرکے بلین ڈالز بٹورے گئے ۔
وزیر اعظم پاکستان نے اس ٹویٹ کا جواب دیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے پچھتر ہزار لوگوں کی قربانی دی، انفراسٹرکچر اور معیشت وغیرہ تباہ و برباد ہوا۔ امریکہ بتائے کہ امریکہ کے کس اتحادی نے اتنی قربانی دی ہے۔ امریکہ نے جنگ کے لیے پاکستان پر اکیس بلین ڈالر دینے کا الزام عائد کیا۔ اسے کہتے نفسیاتی حربے۔ پاکستان کی رہی سہی معیشت جو کچھ نہ کچھ بحال ہوئی تھی، دوبارہ تباہی کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس طرح ہی ہوتا ہے دوسرے ملکوں میں دخل مداخلت کی پالیسی کا انجام۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حکومت نے کئی ایک اقدامات کیے، لیکن امریکہ بہادراپنے ڈور مور کی رٹ سے پھر بھی باز آنے والا نہیں۔ اب دوبارہ حالیہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی سرکار کو افغانستان میں امن اور طالبان سے مذاکرات کے لیے خط بھیجا ہے، جس کا جواب روانہ کیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پراکسی وار میں کوئی بھی ملک نہیں جیت سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو پڑوسی جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔اس کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے ہم اپنے گناہوں کو دھو سکتے ہیں اور اس کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پاکستان کو دفاعی اور خارجہ امور میں اعتدال کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ڈیپ سٹیٹ کی تھیوری کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ در اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی دو دہائیوں سے مغربی بارڈر پر جنگ جیسی صورتحال ہے اور کسی نہ کسی طرح پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ بہادریہاں سے بخیر و عافیت لوٹ جائے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ان کا یہاں رکنا خطرے سے خالی نہ ہوگا اور شائد ہی اس کے رہتے ہوئے ہمارے یہاں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم خود ہی دوسرے کی جنگوں میں ثالثی اور اتحادی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں لگی آگ کی چنگاریاں پاکستان میں اور جنوب ایشیا میں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ خد اکرے طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوجائیں اور امریکہ اپنے وطن میں افغانستان کے قیامِ امن کے بعد واپس ہوجائے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس طرف بھی جاری شورش کو انجام تک پہنچانا پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔ مملکتِ پاکستان کو اپنے دیرینہ مسائل جیسے معیشت کی جدید طرز پر بحالی،اقتصاد، زراعت، زرِمبالہ کو بڑھانے، ملکی اداروں کو مضبوط بنانے اور ٹیکنالوجیکل ترقی پر اپنا ذہن مرکوز کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سالمیت پاکستانی عوام کے ساتھ مشروط ہے، جب تک ان کو آئینی اور قانونی طور پر ہر شعبۂ زندگی میں انصاف نہیں ملے گا، پاکستان نہ تو ترقی کرسکتا ہے اور خدانہ کریں نہ ہی یہاں امن و امان قائم ہوسکتا ہے

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply