میکسیکن طوطے، شہد کی مکھی ۔۔۔ مطربہ شیخ

مذہبی کتب دین سکھاتی ہیں زندگی گزارنے کا بہتر طریق، انسانیت پر قائم رہنے کے اصول و ضوابط اور فلاح و نجات کا راستہ۔ مذہب ایمان بالغیب ہے۔ ایقان ہے اور امن ہے۔ 

سائنس علوم کا مجموعہ ہے جس کے لئے کہا گیا کہ:

علم انبیاء کی میراث ہے تو پڑھو اور غور و فکر کرو۔ 

انسانی دماغ بہت پیچیدہ ہے ابھی تک تحقیق جاری ہے کہ یہ کیا سوچتا ہے کیسے سوچتا ہے اور کیا کیا سوچ سکتا ہے۔ ایٹم دریافت ہوا۔ کہا گیا کہ یہ انسان کہ فلاح کے لئے بنایا گیا ہے لیکن اس کے ذریعے تباہی پھیلا دی گئی۔

مذہبی کتاب کہتی ہے کہ تم ایک مکھی یا مچھر تک نہیں بنا سکتے۔

اب ہوا یہ کہ کافی سال پہلے جینیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے مختلف پھل اور سبزیاں بنا لی گیئں۔ پھر سائنسدانوں نے بتایا کہ ایک مصنوعی بھیڑ بھی بنا لی گئ ہے جس کا نام ڈولی رکھا گیا ہے۔

ہم لوگ شک میں پڑ گئے اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت انٹر نیٹ پاکستان میں اتنا سستا دستیاب نہیں تھا اسلئے زیادہ معلومات نہیں ملیں۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ ابھی مزید ریسرچ جاری ہے۔ پھر میرے کزن کینیڈا گئے۔ ان کی جاب بھی سائنس سے متعلقہ شعبے میں ہے۔ انہوں نے بتایا دیکھو بھئی جہاں سائنس انسانیت کی فلاح کے لئے ہے وہیں کامیاب ہے۔ ڈولی زندہ نہیں رہی۔ مزید تحقیق جاری ہے۔ 

سائنس انسانوں کے بانجھ پن کا علاج کر رہی ہے ۔آئی وی ایف ٹیکلنالوجی، انٹرا ویوو فرٹیلائزیشن اور بہت سی اصطلاحات ہیں۔ کچھ سالوں سے یہ علاج کراچی میں آغا خان اور لیاقت نیشنل میں ہوتا ہے اور بہت مہنگا بھی ہے۔ جب اس علاج کے بارے میں ٹی وی پر مستقل مارننگ شوز میں بتایا گیا تو لوگوں نے کروایا۔ ہماری ایک ڈاکٹر دوست آسٹریلیا سے پڑھ کر آئیں۔ لیاقت نیشنل ہسپتال میں ملازمت کرنے لگیں تو ان سے پوچھا اور انہوں نے بتایا۔ سو فیصد کامیاب نہیں ہے لیکن مزید پڑھائی جاری ہے۔ امید ہے کہ سائنسدان دو تین سالوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پچھلے دنوں ہی ڈی ڈبلیو چینل پر رپورٹ دیکھی کہ ابھی بھی نوے فیصد کامیابی ہے۔ انسانی جسم کی قدرتی پی ایچ اور اندورنی درجہ حرارت سائنسدان کہاں سے لائیں؟ وہ تو خالق نے مینٹین کررکھا ہے۔ ویسی مینٹینس کہاں سے لائیں؟ یہاں سائینس صفر ہے۔ مشیت ایزدی ہے کہ کب وہ اچلھتے ہوئے پانی کو نطفہ اور پھر گوشت کا لوتھڑا بنا دے۔ 

بالکل اسی طرح جیسے ہم انسانی خون نہیں بنا سکے ہیں۔ کسی خطرناک ایکسیڈنٹ کے بعد پوری دنیا میں خون کا عطیہ مانگنا ہی پڑتا ہے۔

سائنسدان دعوی کرتے ہیں کہ ہائبرڈ تخلیق اور کلوننگ ہو رہی ہے۔ مصنوعی انسان بن گئے ہیں۔ جلد ہی وہ ہماری طرح زمین پر چلیں پھریں گے۔ میں پھر شک میں پڑ گئی۔ کزن کو فون کیا واقعی روبوٹ کے بعد مصنوعی انسان آ جائے گا؟ کہنے لگے آ تو گیا ہے لیکن اس میں جان نہیں ہے۔ روح نہیں ہے۔ جذبات و احساسات نہیں ہیں۔ 

سائنس بھی بین الاقوامی سائنسدانوں کے بیچ ہار جیت کا ایک کھیل ہے۔ وہ ایک دوسرے پر برتری کے لئے اور اپنے اپنے ملک کو اونچا دکھانے کے لئے ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں۔

تم شہد پیو دل بھر کر۔ شہد دنیا سے اٹھ جائے گا شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہو رہی ہیں۔ ہم ابھی تک شہد کی مکھی نہیں بنا سکے ہیں۔ معاملہ کہیں صفر ہے اور کہیں سو فیصد ہے۔ مکھی بنا بھی لیں گے تو اسکے پیٹ کے اندر شہد بنانے کا وہ نظام کہاں سے لائیں گے جو اللہ نے تخلیق کیا ہے؟

گھاس میں پائے جانے والا ٹڈا (گراس ہاپر) کی آنکھ میں تیس قسم کے پردے ہوتے ہیں۔ انسانی آنکھ کا پردہ اور ریٹینا بس ماں کے پیٹ میں ہی بنتا ہے۔ سائنس نے چشمے، عدسے، لینسسز دے دیئے لیکن ریٹینا نہیں بنا سکی۔ ہاں اگر خراب ہو جائے تو آنکھ میں انجکشن لگ کر اسکو ٹھیک کرسکتی ہے لیکن کچھ کیسسز میں بینائی واپس نہیں ہو سکی۔ بینائی اللہ کی نعمت ہے اور حق ہے۔ علاج انسانی تدبیر ہے جو اللہ نے عقل کے ذریعے انسان کو کرنے کی صلاحیت دی۔ 

پچھلے ہفتے ڈسکوری چینل پر میکسیکو کی ایک رپورٹ دیکھی۔ میکسیکو میں طوطوں کی ایک نایاب نسل ختم ہو رہی تھی۔ ڈسکوری ٹیم وہاں پہنچی اور انہوں نے اپنی ریسرچ اور کام شروع کیا۔ نسل ختم ہونے کی وجوہات تلاش کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ جب اردگرد انسانی آبادی بڑھ گئی اور لوگوں نے انہیں پکڑنا شروع کیا تو وہ ڈر کے مارے جنگل کے ایک حصےتک محدود ہو گئے اور خوراک، پانی کی کمی کا شکار تھے۔ لیکن خالق کائنات کی شان دیکھئے۔ طوطوں میں اتنی عقل کہ جوان نسل اپنے چھوٹے کزنز کو دانا دنکا ڈھونڈ کر کھلا رہی تھی اور خود افزائش نسل نہیں کر رہی تھی۔ لاکھوں طوطے صرف سینکڑوں کی تعداد میں رہ گئے تھے۔ ٹیم نے ان کے لئے فوراً فارم بنایا، ان کو مکئی اور دوسرے اجناس دینے شروع کئے۔ پانی فراہم کیا۔ جوان نسل کو انجکشن لگائے۔ کچھ نے خوراک سے آسودہ ہوتے ہی قدرتی طریقہ اختیار کیا، اور یوں نسل بچ گئ۔ 

قدرت کی عطا کی گئی خصوصیت کو ایک طوطا بھی اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ کیا ہم انسان اشرف المخلوقات بھی اپنی جنسی طاقت اور اپنی صلاحیتوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں؟ بالکل کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم دین کے ضابطہ اخلاق پر عمل کریں۔ 

لیکن ہم نے دین کے اصولوں کو بھلا دیا ہے۔ ہم فروعی سوالات اور جنس کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ ہم کسی بھی جذبے پر قابو نہیں پا سکتے۔ حسد، غصہ، بغض، کینہ، غیبت، دل آزاری اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے جیسے معاملات میں ہم پیش پیش رہتے ہیں۔ مذہب بہت عظیم ہے۔ عیسائ مسلمانوں سے زیادہ ہیں مشرک ہیں لیکن اللہ نے ان پر نعمت بند نہیں کی۔ کیوں؟ اسلئے کہ وہ برداشت کرتے ہیں۔ انصاف کرتے ہیں۔ حضرت عیسی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مکمل نہ سہی لیکن سماجی اصولوں پر وہ اپنے دین کے بتائے طریقے پر ہیں۔ جبکہ ہم نے اپنے آپ کو کمزور کر لیا ہے۔ ایمان مجمل و ایمان مفصل پر یقین رکھئے، کسی فرد کے سوال کرنے سے نہ ہمارے ایمان پر فرق پڑتا ہے نہ اسلام پر۔ اسلام تو مکمل ہے۔ قیامت تک کے لئے ہے۔ مذہب قائم رہے گا۔ انسانی ذہن بھی اور سائنس کے ذریعے اپنے کمالات دکھاتا رہے گا۔ 

ہمارا کام یہ ہونا چاہیئے کہ ہم کسی کی دل آزاری سے بچتے ہوئے اپنے معاشرے میں سماجی خرابیوں کو دور کرنے اور انصاف و قانون لاگو کرنے کے لئے کوشاں ہو جائیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم یہ کام باآسانی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے اخلاق بہتر کر لیں۔ روز قیامت وہ لوگ بہتر ین ہوں گے، پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر میں ہوں گے جن کے اخلاق اعلی ہوں گے اور جنہوں نے زمین پر امن قائم کرنے کی کوشش بھی کی ہو گی۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میکسیکن طوطے، شہد کی مکھی ۔۔۔ مطربہ شیخ

Leave a Reply