• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔۔۔۔۔کامریڈ بشارت عباسی

سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔۔۔۔۔کامریڈ بشارت عباسی

جب ہم سوشلزم/ کمیونزم کی بات کرتے ہیں تو اچانک سےکچھ (بقول انکے) حقیقت پسند لوگ نمودار ہوتے ہیں اور ہمیں حقیقت پسندی کا درس دینے لگتے ہیں کہ بھیا سوشلزم تو روس میں ناکام ہو گیا اور چین نے بھی ترمیم پسندی کا راستہ اختیار کر لیا تو آپ کس سوشلزم کی بات کر رہے ہیں؟ اب اس قسم کے استدلال میں بنیادی طور پر دو طرح کے نقائص پائے جاتے ہیں:

اوّل نقص یہ کہ ہم کسی ایک تاریخی وقوعے یا اوینٹ کو تاریخی حتمیت کے طور پہ لینا شروع کر دیں ( جیسا کہ فوکویاما نامی اک مسخرے دانشور نے سویت یونین کے انہدام کے بعد حتمی طور پہ یہ اعلان کر دیا کہ ۱۹۸۹/۹۱ میں تاریخ کا اختتام ہو گیا اور سرمایہ داری نظام کو تاریخ میں حتمی فتح حاصل ہو گئی، لحاظہ اب پوری انسانیت کو رہتی دنیا تک اسی نظام کو بھگتنا پڑے گا)۔

دوسرا نقص تاریخ کے ادھورے یا نامکمل شعور کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ۔ تاریخ کا نامکمل شعور یا دوسرے الفاظ میں تاریخ کے متعلق لا علمی کے نتیجے میں ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں ، تاریخ کے ایک خاص دور میں، اگر کسی نظام کو شکست ہوتی ہے تو بجائے اس شکست کے تاریخی اور سائنسی عوامل کا بغور مطالعہ کرنے کے ہم ایک جاہلانہ کامن سینس یا عمومی نتیجہ اخذ کر لیں کہ اچھا یہ نظام تو ہمیشہ کے لئے ناکام ہو گیا اور جو موجودہ نظام ہے وہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا، پھر نہ ہمیں اس نظام کے تضادات نظر آتے ہیں، اور نہ ہی یہ نظر آتا   ہے کہ کس طرح اس انسان دشمن اور ماحولیات دشمن نظام نے پوری انسانیت کو اور ماحولیات کو سرمائے کا غلام بنا رکھا ہے۔

کامن سینس رئلزم یا عامیانہ حقیقت پسندی نہ صرف تاریخی شعور سے عاری ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں جو شعور وجود میں آتا ہے وہ بنیادی طور پر یک رخا اور غیر جدلیاتی ہوتا ہے۔ اس طرح کے عامیانہ شعور کے حامل افراد چیزوں کو سیاہ و سفید کے دائرے میں دیکھتے ہیں اور مظاہر کی پیچیدگیاں سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ کامن سینس ریئلزم کے نتیجے میں جو اخلاقیات وجود میں آتی ہے وہ سوائے رائج نظام کی پرستش اور ہر چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے اور کچھ نہیں سکھاتی۔ اس طرح کے لوگ علمی لحاظ سے یک رخے اور اخلاقی و سیاسی لحاظ سے منافق، دوغلے، پاکھنڈی اور تمام تر اصولوں سے عاری ہوتے ہیں۔ جب بھی ان جیسے لوگوں کے سامنے رائج نظام پہ تنقید کی جائے تو یہ تلملا اٹھتے ہیں، ان کا نیم مردہ ضمیر ان کو جھنجوڑنے لگتا ہے اور یہ تنقید کرنے والوں پہ چڑھ دوڑتے ، پھر اپنے نیم مردہ ضمیر کو سلانے کے لئے ان نظریات کی طرف لپکتے ہیں جو کہ موجودہ سرمایہ داری نظام نے اپنے نظریاتی دفاع کے لئے بنائے ہوتے ہیں ، اور پھر جب ان تمام دفاعی نظریات کو علمی طور پہ بے نقاب کیا جاتا ہے تو بجائے دلیل کے، یہ لوگ کج بحثی ، مبالغے، اور سوفستائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کسی بھی گلے سڑے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو بدلنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں، اور اس میں کئی انقلابات اور رد انقلابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رائج نظام کے اندر جب تک اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، وہ اپنی بقاکی جنگ لڑتا رہتا ہے، چاہے اس کے لئے کتنی ہی درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیوں نہ کرنا پڑے۔ یورپ کے فیوڈل نظام کو ایک دن میں شکست نہیں ہوئی تھی، بلکہ صدیوں کی عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ہوئی جس میں انقلابات، رد انقلابات، اور ترمیم پسند ادوار شامل ہیں۔ موجودہ سرمایہ داری نظام کے اندر اس نظام کے خلاف جدوجہد تو موجودہے لیکن کوئی کامیاب سوشلسٹ انقلاب ابھی تک نہیں آیا، ہاں انقلابات سامراج کی کمزور کڑیوں یعنی نیم نو آبادیاتی معاشروں میں ضرور آئے جہاں سامراج کا زور کم تھا اور بورژوازی لبرل یا ترمیم پسند نظریات کا زور بھی کم تھا، ان انقلابات کے نتیجے میں جہاں پسماندہ اقوام نے تیزی سے ترقی کے مراحل طے کئے وہاں مغربی سرمایاداری اور استعماری ممالک کو بھی مجبوراً عوام کو فلاحی ریاست کی صورت میں مراعات دینی پڑیں ، لیکن یہ مراعات انہوں نےآسانی سے نہیں بلکہ ایک طویل عوامی جدوجہد اور دو بڑی سامراجی جنگوں کے بعد دیں۔ روس میں جب انقلاب آیا تو سامراجی قوتوں نے پہلے خانہ جنگی کے ذریعے پھر فاشسٹ اور نازی جرمنی کے ذریعے روس کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی اور اسے نو آبادیاتی غلامی کے اندر لانا چاہا، لیکن جب روس نے نازی جرمنی کا ڈٹ کے مقابلا کیا تو پھر استعمار کو مجبوراً اپنے ہی بنائے ہوئے بھوت کے خلاف لڑنا پڑا۔ لیکن جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد امریکی سرمایاداری استعمار نے روس کے خلاف ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا اور روسی معیشت کو بجائے عوام کی فلاح و بہبود میں استعمال ہونے کے ہتھیاروں کی  دوڑ میں الجھا دیا گیا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا روس کے پاس اس ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کے کوئی دوسرا راستہ تھا؟ اس سوال پر کسی اور دن بحث ہوگی۔ لیکن اس جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا  ہونے والےاندرونی تضادات کے نتیجے میں نہ صرف روس کی معیشت پہ برے اثرات مرتب ہوئے بلکہ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے بھی روس کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کا گہرائی کے ساتھ تاریخی مطالعہ کئے بغیر بیسویں صدی کی تاریخ کو سمجھنا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیا اندرونی و بیرونی عوامل تھے جن کے نتیجے میں سویت یونین نہ صرف اندرونی طور پہ کمزور ہوا بلکہ روس کی رد انقلابی قوتیں غالب آئیں اور سوشلسٹ نظام کا خاتمہ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان تمام باتوں کو سمجھنے کے لئے تاریخ کے ایک جدلیاتی شعور کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی دو ٹکے کے سامراجی کارندے کی لکھی ہوئی ریئلسٹ تھیوری پہ مبنی کتاب پڑھنے سے کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ تاریخ میں کوئی شکست حتمی شکست نہیں ہوتی، جب تک اس انسان دشمن باطل سرمایہ دار نہ نظام کو ہم جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکیں یہ جدوجہد نسل در نسل جاری رہی گی، اور فتح ہماری ہی ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply