• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سارہ تواب اگر اسسٹنٹ کمشنر نہ ہوتیں؟ ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

سارہ تواب اگر اسسٹنٹ کمشنر نہ ہوتیں؟ ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

فرض کریں سارہ تواب ایک سسٹنٹ کمشنر نہ ہوتیں ۔
ننھے سے بچے کو گود میں لے کر پشاور میں تجاوزات کے خلاف مہم کی قیادت کرتی اسسٹنٹ کمشنر سارہ تواب کی پہلی تصویر دیکھی تو اچھا لگا ۔ ممتا کے ساتھ ایک فرض شناس افسر کا تاثر ابھرا ۔ یوں محسوس ہوا جیسے ایک ماں کو اس کی سرکاری ذمہ داریوں نے اچانک ہی آواز دی اور وہ بچہ گود میں لیے چلی آئیں ۔ لیکن اس کے بعد دفتر میں بچے کو گود میں لے کرفیڈر پلانے کی ویڈیوز جس والہانہ انداز سے ٹی وی چینلز پر چلیں اور جس ڈرامائی انداز سے اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ فرض اور ممتا کے موضوع پر اس قوم کی رہنمائی کرتی پائی گئیں اس سے ایک سوال نے جنم لیا : سوال یہ ہے کہ اگرسارہ تواب ایک اسسٹنٹ کمشنر نہ ہوتیں؟

فرض کریں وہ کسی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں کوئی کلرک ہوتیں ، فرض کریں وہ پشاور کے کسی ہسپتال کی کوئی نرس ہوتیں ، فرض کریں وہ کسی تھانے کی کوئی لیڈی کانسٹیبل ہوتیں ، فرض کریں وہ کسی سکول کی ٹیچر یا کسی کالج کی لیکچرار ہوتیں ، فرض کریں وہ کسی سرکاری ہسپتال کی کوئی ڈاکٹر ہوتیں ، فرض کریں وہ کسی بھی دفتر میں کسی بھی منصب پر کام کر رہی ہوتیں مگر وہ ایک بیوروکریٹ نہ ہوتیں تو کیا انہیں اس بات کی اجازت ہوتی کہ وہ اپنے چھوٹے سے بچے کو بھی اپنے ساتھ دفتر لے آئیں ؟ وہ کوئی کلرک ، نرس، ڈاکٹر ،ٹیچر یا لیکچرار ہوتیں اور اس طرح دوران ڈیوٹی ان کا بچہ ان کی گود میں ہوتا تو ڈپٹی کمشنر آفس پشاور ان کی تصویر فخر سے اپنے فیس بک پیج پر ڈالتا یا انہیں انکے متعلقہ دفتر میں بیٹھے کسی رعونت زدہ بیوروکریٹ کی جانب سے ایک عدد شوکاز نوٹس جاری کیا جا چکا ہوتا ؟اور کیا اس صورت میں بھی ہمارا میڈیا وارفتگی کے عالم میں قوم کو یہی بتا رہا ہوتا کہ اس عظیم خاتون نے ماں کی ذمہ داریاں اور دفتر کے فرائض بیک وقت نبھا کر یہ ثابت کر دیا کہ عورت کسی سے کم نہیں یا ہماری سکرینوں پر صف ماتم بچھ چکی ہوتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور جونیئر اور سینئر تجزیہ کار مل کر اور گلا پھاڑ کر سوال اٹھا رہے ہوتے کہ اس خاتون کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کوئی محکمانہ کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟

شہروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں اور بیوی دونوں جاب پر جاتے ہیں اور گھر میں بچے کی دیکھ بھال کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا ۔ بچے گھر پر کسی ملازمہ کے حوالے کر کے بھی نہیں جایا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ اب اس کا حل کیا ہے ؟ اس کا ایک حل تو ڈے کیئر سنٹر ہیں جہاں، الا ماشا ء اللہ ، حکومت کی جانب سے سہولیات اور انتظامات کے حوالے سے دی گئی پینتیس صفحات کی گائیڈ لائنز میں شاید ہی کسی پر عمل کیا جاتا ہو ۔ دوسرا حل جائے ملازمت پر بچوں کے لیے کوئی ایک کمرہ مختص کر کے نکالا گیا ہے ۔ خواتین جائے ملازمت پر بچہ ساتھ تو لاسکتی ہیں مگر لازم ہے کہ بچہ اس کمرے تک محدود رہے گا جو جائے ملازمت پر بچوں کے لیے مختص کیا گیا ہو۔

کئی واقعات میرے علم میں ہیں جہاں بچوں کو ساتھ رکھنے پر خواتین کو تذلیل ، تضحیک اور شوکاز نوٹس جیسے مراحل سے گزرنا پڑا ۔ لاہور کے ایک کالج کا واقعہ ہے جہاں کمرے کی ٹھنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے پرنسپل نے بچوں کو دھوپ میں لان میں کھیلنے کی اجازت دے دی ۔ ایک دن ایک بیوروکریٹ صاحب نے ڈائرکٹر صاحب کے ساتھ اچانک کالج کا دورہ فرمایا تو پرنسپل کی کم بختی آگئی کہ انہوں نے بچوں کو کمرے تک محدود کیوں نہیں رکھا ۔ بچے ڈسپلن خراب کر رہے ہیں ۔ اسلام آباد کے ایک پرائمری سکول میں ایک خاتون کو صرف اس جرم میں شوکاز نوٹس جاری کیا گیا کہ جب ایک ٹیم نے دورہ فرمایا تو خاتون بچے کو گود میں لے کر کلاس لے رہی تھیں ۔ پمز ہسپتال میں چند سال قبل ایک خاتون ڈاکٹر کو محض اس لیے اذیت سے گزرنا پڑا اور وضاحتیں دینا پڑیں کہ جب وہ ڈیوٹی پر تھی تو اس کی تین ماہ کی بچی اس کی گود میں کیوں تھی ؟ ذرا معلوم کیجیے کہ خادم اعلی کی بھیجی گئی ٹیموں کے ہاتھوں ایسے ہی ’’ سنگین جرائم ‘‘ کے ارتکاب پر کتنی خواتین کو نوٹس جاری ہوئے ۔ گذشتہ سال تو خواتین اساتذہ کو یہ حکم شریف بھی سنا دیا گیا تھا کہ جب تک کوئی خونی رشتہ دار مر نہ جائے رخصت اتفاقیہ بھی نہیں ملے گی۔ بہت شور اٹھا تو یہ حکم شریف واپس لیا گیا ۔ الیکشن کے موقع پر کچھ سرکاری ملازمین کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ میاں بیوی دونوں کی ڈیوٹیاں لگ گئیں اور انہیں تین ماہ کے بچے کو کسی کے حوالے کر کے ڈیوٹی پر جانا پڑا ۔ ستم ظریفی دیکھیے آج ایسی سینکڑوں ماؤں کو ممتا اور فرائض منصبی کے درس وہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ دے رہی ہیں جو اپنی بچی کو ایک پل بھی خود سے جدا نہیں کرتیں اور دفتر ساتھ لاتی ہیں۔

سارا تواب اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور ریاست نے انہیں نصف درجن ملازم دے رکھے ہیں۔ تنخواہ بھی معقول ہے ۔ وہ چاہیں تو بچی کے لیے آیا بھی رکھ سکتی ہیں جو ان کے دفتر ہی کے کسی کمرے میں بچی کی دیکھ بھال کر لیا کرے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ بچی ساتھ لے کر دفتر میں فوٹو شوٹ کروا رہی ہیں او ر ڈھٹائی دیکھیے کہ نادم ہونے کی بجائے میڈیاپر بیٹھ کر قوم کو ممتا اور فرض منصبی کے حوالے سے یوں درس دے رہی ہیں گویا باقی خواتین اہلکاروں نے تو کبھی بچوں کی پرورش کی ہی نہیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ وہ پہلی ہستی ہیں جو دونوں کام سر انجام دے کر تاریخ رقم فرما رہی ہیں اور شہرت کی تمنائے بے کراں میں یہ بھی بھول چکی ہیں کہ کیا ایک اسسٹنٹ کمشنر کو محکمے کا ضابطہ اخلاق اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ میڈیا پر بیٹھ کر ممتا اور فرائض منصبی پر قوم کی رہنمائی فرمائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال بہت سادہ ہے: جو کام سارا تواب نے کیا ، کیا دیگرملازمت پیشہ خواتین کو بھی اس کی اجازت ہے ؟ اور اگر دیگر ملازمت پیشہ خواتین کو اس کی اجازت نہیں ہے تو سارا تواب کو یہ اجازت کس نے دی ؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25کے مطابق تمام شہری برابر ہیں ، کیا بیوروکریسی نے کوئی نیا آئین بنا لیا ہے جس میں جارج آرول کے اینیمل فارم کی طرح یہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ تمام شہری بے شک برابر ہیں لیکن بیوروکریٹ کچھ زیادہ ہی برابر ہیں؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply