ہیلری کی ای میلز اور دہشت گردی کے بیانیہ جات 

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ضمن میں امریکی بیانیہ دہشت گردی کی نظریاتی وجوہات میں سنی سلفی شدت پسندی کی تو کافی وضاحت کرتا تھا لیکن اس کی فنی، تنظیمی اور مالی پشت پناہی کی خاص وضاحت نہ تھی۔ لے دے کے افغان سوویت جنگ (جو تب تک ماضی کا فسانہ تھی) وغیرہ کا ذکر تھا اور دبے لفظوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسی کا ذکر ہوتا تھا۔
 
اس تھیوری کی کمزوری یہ تھی کہ پاکستان و افغانستان کے علاقے کی دہشت گردی کی تو وضاحت کرتی تھی لیکن عالمی دہشت گردی کے بارے میں کچھ وضاحت موجود نہیں تھی۔ لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود عالمی میڈیا کی بھرپور پروجیکشن کے باعث یہی بیانیہ خود ہمارے ہاں بھی دستیاب رہا۔ 

تاہم اس ضمن میں روسی بیانیہ کافی مختلف تھا، جس کا بوجوہ ہمارے ہاں چرچا نہ ہوا۔ اس کے مطابق امریکہ اور گلف کے عرب ممالک بشمول سعودی عرب کا گٹھ جوڑ عالمی دہشت گردی کے پھیلاؤ کا ذمہ دار تھا۔ جس میں فنی و تنظیمی معاونت امریکہ اور مالی و نظریاتی امداد گلف سے آتی تھی۔ یہ نظریہ نسبتاً زیادہ جامع اور مربوط تھا جو اس کے تمام پہلوؤں پہ روشنی ڈالنے کا اہل تھا۔ 

مشرق وسطی میں داعش کے یکایک ظہور کے بعد روسی نظریہ کو تقویت ملنا شروع ہوئی کیونکہ روسی صدر پوتن نے کئی ماہ قبل ہی خبردار کردیا تھا کہ مشرق وسطی میں بڑے پیمانے پہ شیعہ سنی جنگ کرائے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اس پیشین گوئی کے حیرت انگیز طور پہ پورا ہونے پہ سب کی توجہ روسی موقف کی طرف مبذول ہونا قدرتی تھا۔ اس کے بعد سنجیدہ حلقوں کے علاوہ عوام بشمول راقم الحروف کی نظر میں امریکی بیانیہ محض قصہ کہانی ہی رہ گیا۔
 
اسی دور میں سٹیو برینن، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا منتظم رہا، نے ویٹیکن میں عالمی دہشت گردی کے موضوع پہ مقالہ پیش کیا جو دہشت گردی کی متبادل، غیر سرکاری امریکی تھیوری کہلا سکتا ہے۔ اس کے مطابق، ناجائز سرمایہ بشمول گلف کا عرب سرمایہ، سیاستدانوں اور میڈیا کا ایک گٹھ جوڑ موجود تھا جو کرپشن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پہ اثرانداز ہوتا تھا۔ کرپشن کے بل پہ حاصل کیا گیا یہ سرمایہ دوبارہ دہشت گردی میں انویسٹ ہوتا اور مزید ناجائز دولت کے حصول کا ذریعہ بنتا تھا۔ 

بنیادی طور پہ یہ تھیوری روسی بیانیہ کی ہی ایک ایسی شکل تھی جس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کردار چند کرپٹ عناصر تک محدود تھا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم برینن نے ہی منظم کی اور دہشت گردی کا یہی بیانیہ اس کی ٹیم کا بیانیہ تھا۔ ظاہر ہے دہشت گردی کے جن ذمہ داروں کا تعین کیا گیا تھا، مین سٹریم امریکی میڈیا انہی کے زیراثر تھا تو ٹرمپ کی کردار کشی کی مہم زور و شور سے چلی۔ برینن نے اپنی مہم میں متبادل میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

 اس انتخابی مہم میں ہنگامہ خیز موڑ تب آیا جب شام کی جنگ سے قبل کی ہیلری کلنٹن کی ای میلز وکی لیکس پہ شائع ہوئیں۔ یہ روسی انٹیلی جنس کا کارنامہ تھا جس نے ہیلری کا ای میل اکاؤنٹ ہیک کرکے انہیں حاصل کیا تھا۔ “بقول ہیلری، ایران کے ایٹمی معاہدہ کے بارے میں اسرائیل کے تحفظات دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شام میں بشار کی حکومت ختم کرکے اسرائیل نواز طاقتوں کو براجمان کیا جائے”۔ 
اس کے بعد ہی داعش کا ظہور ہوا اور شام و عراق میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ان ای میلز کی اشاعت دہشت گردی کے متعلق ٹرمپ کے بیانیہ کے لئے ثبوت کی حیثیت رکھتی تھی جن کی صداقت سے ہیلری بھی انکار نہ کرسکی۔ مزے کی بات ہے کہ مین سٹریم میڈیا نے اپنا زور اس بات پہ رکھا کہ ای میلز ہیک کیسے ہوئیں اور اس میں ہیلری کی غفلت کتنی تھی لیکن یہ سوال نہ اٹھا کہ ہیلری کتنے انسانوں کے قتل کی ذمہ دار تھی۔ لیکن خیر یہ سوال تو ہمارے ہاں بھی نہ اٹھا کہ ہمارے برادر عرب بھائی اس خون کی ہولی میں پورے پورے شریک تھے۔ 
اب جبکہ ٹرمپ جیت چکا ہے تو دہشت گردی کے متعلق امریکی بیانیہ یہی ہے۔ سٹیو برینن ہی اب ٹرمپ کا چیف آف سٹاف اور اس کی آئندہ سیاسی سٹریٹیجی متعین کرنے والا ہے تو متوقع یہ ہے کہ خود امریکی انٹیلی جنس میں لمبے چوڑے پیمانے پہ تحقیقات اور تطہیر ہو۔ ہمارا میڈیا یہ تو ذکر کرتا رہا کہ ٹرمپ کا رویہ گلف اور عرب ممالک کے بارے میں بہت سخت ہوگا لیکن اس کی وجوہات پہ روشنی کبھی نہ ڈالی گئی۔ اس ممکنہ سخت رویہ کی وجہ یہی ہے کہ یہ ممالک اس کھیل میں بڑے سٹیک ہولڈر تھے جس گٹھ جوڑ کو توڑنے کی بات کی گئی۔ بیس جنوری کے بعد نئی انتطامیہ کام شروع کردے گی تو عملی پوزیشن سامنے آتی جائے گی۔ فی الحال یہ کہ میڈیا کے کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا بھی عندیہ دے دیا گیا ہے۔ 

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply