اظہار لاتعلقی ۔۔۔ نمرہ شیخ

اظہارِ لا تعلقی!

کبھی کارکنان سے 

کبھی رہنماؤں سے 

کبھی قائد سے 

اب  تو قائد کے کیس سے بھی ہوگئی تو کیا بُرائی ہے اگر قائد کے دیے گئے مینڈیٹ سے بھی لا تعلقی کرلیں؟ کچھ لوگ اس  لا تعلقی کی دوڑ میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ جس درخت نے انہیں چھاؤں دی، پھل دیا، سلایا، کھلایا وہ اسی کو کاٹنے چلے ہیں۔ 

اگر آپ کو کسی شخص سے یا جگہ سے کوئی اختلاف ہوتا ہے تو آپ اس شخص سے یا جگہ سے اپنے آپ کو دور کرلیتے ہیں اور یہی سہل اور آسان طریقہ بھی ہے، ناکہ  اس شخص کو ہی اس جگہ سے باہر نکال دیا جائے۔ 

یہی مثال ایم کیو ایم اور قائد جناب الطاف حسین بھائی کی ہے۔ اگر کسی کو ایم کیو ایم سے یا الطاف بھائی سے مسئلہ ہے تو وہ اپنی مرضی سے پارٹی چھوڑ سکتا ہے، اس میں کوئی آپ کو برا بھلا بھی نہیں کہے گا۔ آپ جہاں جانا چاہیں جس سیاسی جماعت کا حصہ بننا چاہیں یا خود کوئی سیاسی جماعت بنانا چاہیں بنا سکتے ہیں یہ آپ کا جمہوری حق ہے اور شریفانہ طریقہ بھی۔ 

لیکن یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو الطاف بھائی سے ایم کیو ایم سے لاکھ اختلاف ہیں وہ بارہا الطاف بھائی سے اظہارِ لا تعلقی بھی کر چکے ہیں لیکن ایم کیو ایم چھوڑنا نہیں چاہتے بلکہ الٹا خود ایم کیو ایم کے بانی کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ ان کی پارٹی، ان کا مینڈیٹ، ان کے کارکنان لے کر ایم کیو ایم پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ 

اور یہ کسی بھی وفادار کارکن یا ہمدرد کو کسی طور قبول نہیں ہوگا۔ 

آپ ایک نئی سیاسی جماعت بنائیں جیسے ماضی میں بھی آپ جیسے مفاد پرست عناصر بنا چکے ہیں۔ جدوجہد کریں، قربانیاں دیں، پھر اپنی جماعت سے الیکشن لڑیں، اگر جیت جائیں تو اپنے لوگوں کے لیے کام کریں۔ 

لیکن چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم آپ کی رہے اور الطاف حسین کا نام بھی نہ لیا جائے تو یہ ناممکن ہے۔ یہ تحریک الطاف بھائی نے شروع کی تھی، اور اس میں ان کے نظریات اور ان کی قربانیاں ہیں۔ کارکنان بھی ان کے ہیں۔ ایم کیو ایم میں آپ کا کچھ بھی نہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ کراچی اور حیدرآباد کی وال چاکنگ، گلی گلی نکلنے والی ریلیوں اور آپ کے جلسوں میں لگنے والے جئے الطاف کے نعروں سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ 

  ایم کیو ایم الطاف بھائی کی ہے اور الطاف بھائی ایم کیو ایم کے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ 

 ہم لاکھ سہل انگار سہی پر اہلِ ہوس یہ جان لیں سب

Advertisements
julia rana solicitors

 الطاف حسین ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply