بیڈ روک کیفے۔۔۔۔علی اختر

میں دروازے سے داخل ہوا تو منظر ہی کچھ اور تھا سامنے پوسٹر لگا تھا “بیڈ روک کیفے” ۔ داہنی طرف نظر اٹھائیں تو شوٹنگ ٹاگٹ کا بورڈ لگا تھا۔ جسکےسامںے اسنوکر کی میز موجود تھی۔

ساتھ ہی ایک فریج جسکے شیشے کے دروازہ سے بیئر اور کوکا کولا کے کین دکھائی دے رہے تھے۔

فریج کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ میزیں رکھی تھیں جسکے ساتھ بار میں رکھنے والی اونچی کرسیاں کھڑی تھیں ۔ میز پر ایک لسٹ ٹیلی شیٹ کے ساتھ موجود تھی جسمیں بیئر پینے کا کارڈ لکھا گیا تھا ۔

کیفے کی چھت پر نظر اٹھا کر دیکھیں تو ڈنمارک کا جھنڈا تنا نظر آتا تھا۔ بائیں جانب ایک صوفہ سیٹ اور ٹیبل رکھی تھی ۔ اور اس کے سامنے ایک بڑی اسکرین رکھی تھی جسکے دونوں اطراف ساؤنڈ سسٹم کے بڑے بڑے اسپیکر پڑے تھے۔

کیفے کی پچھلی جانب چار دیواری میں ایک اوپن جگہ تھی جہاں ایک چھوٹا سا پورٹیبل سوئمنگ پول تھا۔ جسکی اوپری سطح پر پانی کو ڈھکنے کے لیئے اور کور چڑھایا گیا تھا ۔ اسکے ساتھ باربی کیو کی ایک انگیٹھی اسٹینڈ پر پڑی تھی ۔

میں اور عامر صاحب ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ہماری ہی فیکٹری ہے یا غلطی سے یورپ کے کسی بار نما کیفے کا دروازہ گھل گیا ہے ۔

جی ہاں جناب یہ جگہ پاکستان کے صوبے سندھ ہی میں واقع ایک فیکٹری میں موجود تھی جسے وہاں کام پر معمور ایک یورپین ٹیم کے مینیجر نے اپنے اسٹاف کی اینٹر ٹینمنٹ اور کام کے بعد اسٹریس کم کرنے کے لیئے ڈیزائن کیا تھا ۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا جم بھی تھا جہاں وہ ٹیم منیجر اور اسکا اسٹاف کام کے بعد ورزش کرتے تھے۔ وہاں بھی ایک بڑی سی ایل سی ڈی اور ساؤنڈ سسٹم موجود تھا ۔

یاد رہے کے یہ ٹیم محض کوئی سروے یا این جی او وغیرہ کی جانب سے نہیں آئی  ہے بلکہ اسکے ذمے پاکستان کے بڑے سیمنٹ پلانٹس میں سے ایک کی انسٹالیشن اور ایر کشن نیز سول ورک ، اور الیکٹریکل ورک بھی ہے۔ اربوں روپے مالیت کا یہ پلانٹ مقررہ وقت پر مکمل کرنا اور چلانا بھی ہے اور اسکے وقت مقرر پر مکمل نہ ہونے کی صورت میں بھاری پنالٹی کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں ۔

میں اور میرے سینئر عامر صاحب دونوں ہی حیران تھے کہ  اتنی بڑی ذمہ داری کندھوں پر لیئے، دیار غیر میں بیٹھے، مختلف قومیت کے لوگ جو یقیناً بھاری تنخواہیں بھی لیتے ہونگے کے پاس میوزک، ورزش، بار بی کیو، انڈور کھیل ، تیراکی وغیرہ کا وقت کیسے ممکن ہے۔

ایک سوال اور بھی تھا کہ  سال دو سال گزارنے کے لیئے اتنے سارے انتظامات کرنے کی کیا ضرورت تھی جب پروجیکٹ مکمل کرکے واپس اپنے وطن ہی جانا تھا ۔

پھر بعد میں  پتا چلا کہ  یہ سارے لوازمات اس کمپنی کے معاہدے کا حصہ ہیں کہ یہ سب انکا کلائنٹ انکے ایمپلائز کو فراہم کرے گا۔ نیز یہ افراد ناصرف اتوار کو آرام اور تفریح بھی کر رہے ہیں بلکہ ہفتہ کے روز بھی دو بجے کے بعد دفتر میں رکنا جرم سمجھتے ہیں اور تالہ لگا کر ہاسٹل تفریح کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ چھٹی پر اپنے گھر بھی چکر لگاتے ہیں۔

دوسری جانب ہم ہیں جو اس یورپین کمپنی کی ٹیم سے بہت کم ذمہ داریاں ہونے کے باوجود اپنی سوشل لائف تباہ کیئے ہوئے ہیں ، آفس میں لیٹ سٹنگ عام ہے، روانہ کی بنیاد پر انٹرٹینمنٹ تو کجا سال میں ایک بار بھی پکنک نہیں کر پاتے، ہمارے افسران ہمیں یہ کہہ  کر موٹیویشن دلاتے ہیں کہ  دیکھو میں روزانہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں، سالانہ چھٹیاں بھی نہیں کرتے ، ورزش دور کی بات ہے شیو کا ٹائم بھی نہیں ، کتابیں تو کجا اخبار بھی پڑھنا چھوڑ چکے ہیں ۔ غرض کاروباری ہو یا نوکری پیشہ اپنے لیئے یااپنی تفریح کے لیئے اسکے پاس وقت نہیں ہے۔

اس موازنہ کے بعد بھی دیکھا جائے تو انکے ٹارگٹ وقت پر پورے ہوتے ہیں۔ پراجیکٹ ایمانداری سے تیار ہو جاتے ہیں ۔ وہ ہر معاملے  میں ہم سے آگے ہیں ، صحت بھی ہم سے اچھی رہتی ہے۔ کمپنیوں کا پرافٹ بھی کم سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایمپلائز بھی خوش رہتے ہیں ۔ پراڈکٹ معیاری تیار ہوتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ  ہم سے ہر معاملہ میں انکی کارکردگی معیاری ہی نظر آتی ہے۔

ایسا کیوں ہے ۔ شاید اس لیئے کہ وہ لوگ جان چکے ہیں کہ  ایک صحت مند، مطمئن، پر سکون ذہن ہی سو فیصد  فائدہ  دیتا ہے۔ انہیں علم ہے کہ انسان روبوٹ نہیں اسے آٹھ گھنٹے کام کے بعد تفریح کی بھی ضرورت ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں زیادہ گھنٹے کام کرنا ایفیشینسی نہیں بلکہ مقررہ وقت میں کام مکمل کر دینا اصل کمال ہے ۔ وہ لوگوں کی کارکردگی محض وقت صرف کرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔

یہ بیڈ روک کیفے دو تہذیبوں کو ، دو مائنڈ سیٹس کو، دو طرز ہائے زندگی کو الگ کرتا دکھائی  دیتا ہے۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ  کامیابی اپنی زندگی کو محض مشین بنا کر خود کے لیئے اور سرمایہ داروں کے لیئے پیسہ کمانا نہیں۔ بلکہ ” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” بھی کو ئی شے ہے۔ بیڈ روک کیفے کہتا ہے کہ  جب تم جانتے ہو کہ دو روٹی سے بھوک مٹ جاتی ہے۔ انسان رہتا ایک کمرے میں ہی ہے اور سوتا بھی ایک ہی بستر پر ہے ۔ تو اپنی لائف کا گولڈن پیریڈ ان چیزوں کے حصول میں برباد کر دینا خود کے ساتھ ظلم ہے ۔

بیڈ روک کیفے سے منسلک جم یہ کہتا ہے کہ ساٹھ سال میں ریٹائر ہو کر اپنی کوٹھی بنا کر چند سال اس میں گزار کر راہی عدم ہونا کمال نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بغیر واکر کے چلنا ، شوگر اور کولسٹرول کے مسائل پیدا نہ  ہونا اصل کمال ہے۔

“بیڈ روک کیفے” ان نو جوانوں سے بھی گلہ کرتا ہے جو یونیورسٹی میں مکھی پر مکھی بٹھا کر بقایا زندگی سرمایہ جمع کرنے کو ہی اصل کامیابی سمجھتے ہیں کہ  بیٹا شاید تم میں بھی کوئی  رائٹر، میوزیشن، سائنسدان چھپا ہوتا۔ کاش تم نے مشین بننے کے بجائے خود کے لیئے ، اپنی چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیئے بھی وقت نکالا ہوتا۔

“بیڈ روک کیفے ” ہمارے زرد چہرے دیکھتا ہے۔ طرز زندگی پر نظر ڈالتا ہے جو کبھی ماں باپ تو کبھی بچوں کے لیئے گزرتی ہے لیکن خود کی سیر و تفریح کی گنجائش اس میں ندارد ہے۔ کبھی ہمارے پیٹ کی جانب توجہ کرتا ہے جسمیں گنجائش تو دو روٹی کی ہے لیکن وہ پورا اناج کے گودام کو پا کر بھی بھوکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ مسکراتا ہے ۔ کہتا ہے چھوڑو یار یہ سب دھندے ایک “بیڈ روک کیفے ” تم بھی بنا لو ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply