• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ٹرمینیٹر ہولوکاسٹ اور ملائیشیا کی ریل گاڑیاں۔۔۔۔عبدالرحمن قدیر

ٹرمینیٹر ہولوکاسٹ اور ملائیشیا کی ریل گاڑیاں۔۔۔۔عبدالرحمن قدیر

ڈیئر ڈائری!

نومبر 2018 کی ایک اداس مگر حسین خزاں زدہ صبح تھی۔ میں جان کانر، میرا مطلب ہے جانی جوس کارنر والا، اپنی ریڑھی پر جو کہ پنجاب کالج آف گرلز کے سامنے لگائی تھی، وہاں بیٹھا اپنے موبائل پر ریڈیو سن رہا تھا۔ حسین، حور صورت، گلاب مزاج پریاں کالج کے گیٹ میں داخل ہورہی تھیں۔ جن میں سے ایک لیکچرر بھی تھی جو کبھی میری کلاس فیلو رہ چکی تھی۔ اسی منظر نامے میں گم تھا کہ ریڈیو میں ایک پھٹے سپیکر والے شخص کی آواز سنی جو کہ غالبا” حمزہ علی عباسی کو کاپی کر رہا تھا۔ اس وقت سنہری معلوم ہوتے ہوئے انتہائی منحوس الفاظ یہ تھے کہ:
“ملیشیا میں روشنی سے بھی تیز سفر کرنے والی ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔”
اسی وقت میری آنکھوں میں وہ چمک اٹھی کہ سیہون تک اس کی روشنی دیکھی گئی۔ میرے ذہن میں صرف یہ خیال تھا کہ “مزدوری” سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ میں فٹ سے پچونجا روپے والے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملیشیا پہنچا اور اس ریل گاڑی میں داخل ہوا۔ “کلنڈر” کو آواز لگائی کہ رفتار روشنی سے تیز کرو، اور سن 2135 پہنچ کر مجھے جگا دینا۔

اللہ اللہ کر کے سفر تمام ہوا، میں گاڑی سے باہر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جنگل ہے اور کچھ لوگ برہنہ گھوم رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں۔ یہ بات میری توقع سے بالکل برعکس تھی کیوں کہ میں تو عظیم عالمی ترقی کے خواب دیکھ کر اپنی قسمت چمکانے آیا تھا مگر یہاں تو پتھر کا زمانہ معلوم ہو رہا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ
“یہ پاکستان ہے۔ خادم رضوی کے جانے کے بعد ترقی شروع ہوئی، مسلمان ہار گئے اور ہمیں آزادی ملی نیوڈزم میں ترقی کر سکیں، یا ترکی،  کے اوپر شد ہے۔”

خیر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ سوچا سائنسی ترقی تو انہوں نے کپڑے اتار کر کر لی ہے اور لائٹ سپیڈ والی ٹرین دوبارہ آنے میں تین گھنٹے تھے تو کیوں نہ جنگل سے آگے دیکھا جائے۔ وہاں سے باہر نکلا تو منظر دیکھا کہ ایک شہر جو کہ آدھا فضا میں ہے اور آدھا زمیں پر، اور کچھ لوگ کپڑے پہنے گھوم رہے تھے۔ آہ بھری کہ یہ لوگ ترقی میں کتنا پیچھے رہ گئے۔ خیر میں نے وہاں سے روبوٹ اٹھایا اور واپس دوڑا، چونکہ پاکستانی تھا، اس لیے داء لگانے میں مشکل نہیں ہوئی۔ تب تک ٹرین آگئی، اور میں واپس دو ہزار اٹھارہ میں پہنچا کہ اب ہم بھی زمانے سے آگے نکل جائیں گے۔

مگر اسی وقت وہ 2135 کا بنا روبوٹ ایکٹویٹ ہو گیا اور 2018 کے انسانوں کو دیکھ کر باولا ہوگیا۔ وہ بالکل ایک الگ زمانے میں تھا اسی لیے موجودہ دور کے انسانوں کو دشمن سمجھنے تھا۔ نتیجتاً  اس نے پوری دنیا کی مشینوں کو انسٹرکشن بھیج کر انسانوں کے خلاف بغاوت پر مائل کیا اور پھر وہی ہوا جو ہر ٹرمینیٹر فلم میں ہوتا ہے۔

آج 22 نومبر 2030 ہے۔ انسان صرف ہزاروں کی تعداد میں رہ چکے ہیں۔ مگر میں اور میرے چند ساتھی جنہیں کل انسان اور آج مشینیں دہشت گرد تصور کرتی ہیں۔ روز مشینوں سے لڑت ہیں اور اس شخص کو کوستے ہیں جس نے ہمیں روشنی سے بھی تیز چلنے والی مشینوں کا مشورہ دیا۔

کبھی کبھی جب مشینیں اور ہم لڑ لڑ کر تھک جائیں تو بیٹھ کر ایک دوسرے کو پٹواری اور یوتھیے کے القابات سے نواز کے بحث مباحثے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ شاید یہی یاد ہے جو آج بھی ہمیں انسانوں کے عروج کے دور سے جوڑے ہوئے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اقتباس: جانی جوس کارنر والے کی ڈائری
راوی: عبدالرّحمٰن ابنِ قدیر

Facebook Comments

عبدالرحمن قدیر
ایک خلائی لکھاری جس کی مصروفیات میں بلاوجہ سیارہ زمین کے چکر لگانا، بے معنی چیزیں اکٹھی کرنا، اور خاص طور پر وقت ضائع کرنا شامل ہے۔ اور کبھی فرصت کے لمحات میں لکھنا، پڑھنا اور تصویروگرافی بھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply