اور جب میں مر گیا۔۔۔۔منصور مانی/قسط1

شب دو بج کر پینتیس  منٹ پر میرے دماغ نے آخر کار اُس ناسور کے آگے ہتھیار ڈال دیے جسے وہ کئی برس سے بڑی محبت اور لگن سے پال رہا تھا، پہلے لیپ ٹاپ کی اسکرین ہلکے ہلکے دھندلی ہوئی اور پھر ناک سے گرم گرم خون نکلنا شروع ہوا، بہت معمولی سا ،مجھے بہت لطیف سا احساس ہوا میٹھا میٹھا سا درد، دو ہاتھ کی دُوری پر بند دروازے کے پیچھے میرے بچے سو رہے تھے اور اس سے برابر والے کمرے میں اہلیہ، میری زبان اکڑا رہی تھی اور ہاتھ پیر سُن ہو رہے تھے ، میری نظریں دروازے پر جمی تھیں، میں چیخ کر بتانا چا ہ رہا تھا کہ میں تکلیف میں ہوں کوئی آئے اور مجھے بچائے ۔۔۔ لیکن میرے اعضا اب میرا ساتھ دینے سے انکاری تھے ۔۔۔ میری انگلیاں جن سے میں لکھتا تھا چلنے سے معذورتھیں ، میرے پیر پتھر ہو رہے تھے۔۔ میں لیٹے ہوئے اپنی موت کو محسوس کر رہا تھا جو مجھے دھیرے دھیرے اپنی آغوش میں سمیٹ رہی تھی، دماغ گو سست روی سے مردہ ہو رہا تھا لیکن اُس سے  کہیں زیادہ تیزی سے چل رہا تھا، اس ماہ بجلی اور گیس کا بل نہیں جمع کروا سکا تھا، اے ٹی ایم کا پاسورڈ اپنی بڑی بیٹی کو یاد تو کروا دیا تھا لیکن پیسے کتنے ہیں کہاں کہاں سے لینے ہیں یہ تو کسی کو خبر ہی نہیں، گاڑی میں آئل بھی تبدیل کروانا ہے، یکدم خیال آیا بچے تو ابھی بہت چھوٹے ہیں اُن کا کیا ہو گا؟؟ انابیہ تو مجھ سے جب تک لپٹ کر نہ لیٹے اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، اسےتو مجھ سے بہت ساری باتیں کرنی ہوتی ہیں۔۔ انابیہ کا سوچ کر ہی مجھے رونا آ گیا، میری آنکھوں سے قطرہ قطرہ آنسو نکل رہے تھے، لیپ ٹاپ کی اسکرین پر میرا وہ نیوز ورک کھلاتھا جس پر میں کام کر رہا تھا، چند ہزار ڈالر کا یہ کام ابھی کبھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔۔۔!
اسکرین دھندلی ہو چلی تھی، میری آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو میرے گال پر ٹھیر چُکے تھے، میری سانسیں رُک رہی تھیں جسم مردہ ہو رہا تھا،میری زندگی کے سب سے اہم پل تھے میں مر رہا تھا اور میں تنہا تھا۔۔!

تکلیف کی شدت سے میری منہ سے جو کراہ نکل رہی تھی وہ کراہ نہیں ماں کی پُکار تھی، ماں جو اب کہیں نہیں تھی مگر پھر بھی میرے پاس تھی۔۔۔!ایک برس قبل نیوروفزیشن کا میں نے مذاق اُڑایا تھا اُس نے کہا تھا،آپ کے دماغ میں جو بیماری ہے یہ کسی بھی وقت آپ کے دماغ کو مفلوج کر سکتی ہے آپ کبھی بھی مر سکتے ہیں، جس پر میں نے کہا تھا کہ میں کبھی بھی مر سکتا ہوں اس خبر کے لیے مجھے نام کے ساتھ پروفیسر اور لندن سے درجن بھر ڈگریوں کے لاحقے ساتھ لگانے کی ضرورت نہیں۔۔! میں مر رہا تھا اور اچانک ہی سب ہو رہا تھا۔
دو بج کر پچاس منٹ، میں مر چُکا تھا، اسٹڈی میں میرا وجود پڑا تھا لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا، دونوں موبائل ساتھ پڑے تھے ایک پر میسجز آ رہے تھے، میں جانتا تھا یہ میسجز کس کے ہیں، میں جانتا تھا لیکن ان میں اب کیا چھپا تھا میں پڑھ نہیں سکتا تھا!

دو بج کر اکیاون منٹ، میرے سیل فون پر ایک کال آنا شروع ہوئی، یہ کال میں جانتا تھا کس کی ہے ، اٹھارہ برس میں اس نمبر سے آنے والی یہ دوسری کال تھی جسے میں اب اُٹھا نہیں سکتا تھا۔۔۔!
میں انتظار میں تھا کہ کب اہل خانہ کو اس بات کی خبر ہوتی ہے، بچے سو رہے تھے انھیں صبح اسکول جانا تھا، لیکن کل وہ نہیں جا پائیں گے، بڑی بیٹی سمجھ دار ہے، سمجھ جائے گی، بیٹا کچھ کچھ سمجھ جائے گا لیکن انابیہ وہ اسکول نہ جانے پر خوش ہو گی،
میرے سامنے شیلف پر بے تحاشا کتابیں سجی ہوئی تھیں ، اب یہ سب میری بچوں کی تھیں ، میری بچوں کو پڑھنے کا شوق ہے کم از کم یہ کتابیں کسی فٹ پاتھ کی زینت نہیں بن پائیں گی، اچانک میری نظر لیپ ٹاپ پر پڑی، کسی کا فیس بک میسج آیا تھا کس کا یہ میں اب نہیں جان سکتا تھا کیوں کہ ایک ساتھ کئی ونڈو کھلی ہوئی تھیں ،
میں اب انتظار میں تھا، میرا بدن ہلکے ہلکے ٹھنڈا ہو رہا تھا کہ اچانک ہی کمرے میں اندھیراہو گیا،
میں سمجھا کہ میرا دم مکمل طور پر نکل چُکا ہے ، لیکن ایسا نہیں تھا کمرے کا پنکھا ہلکے ہلکے بند ہو رہا تھا یعنی بجلی جا چُکی تھی ،
ابے یار یکدم میرے منہ سے نکلا۔۔۔!
سب تو سو رہے ہیں اب جنریٹر کون چلائے گا؟؟
اگر کوئی اُٹھا تو کم از کم میرے پاس تو ضرور آئے گا۔۔!
تب سب کو پتہ چل جائے گا کہ  مر چُکا ہوں۔۔۔!

تین بج کر تیس منٹ ہلکے سے میری اسٹڈی کا دروازہ کھلا،دروازہ کھلنے سے صحن میں لگے ایمرجنسی بلب کی روشنی اند آئی
یہ انابیہ تھی ، منہ میں انگوٹھا اور جھومتی جھامتی مجھ میں گھس کر لیٹ گئی ،
مجھے رونا سا آ گیا، میں تو اب اسے اپنی آغوش میں بھی نہیں لے سکتا تھا۔۔۔!
لیکن اب میں رو بھی کہاں سکتا تھا؟
میرا وجود سست روی سے ٹھنڈا ہو رہا تھا، انابیہ میرے اندر گھس کر لیٹی تھی اس کے وجود کی گرمی اب بے اثر تھی ، پورے گھر میں ایک سناٹا تھا، میرا وجود سامنے پڑا تھا اور میں اب انتظار میں تھا۔۔!
گھڑی کی سوئیاں دھڑک رہی تھیں
تھم چُکے تھے وقت اور میں۔۔۔۔!

کئی کام ادھورے رہ گئے تھے کچھ وعدے تھے جو اب کبھی پورے نہیں ہو سکیں گے ، مجھے فکر تھی میں کچھ بھی جمع نہیں کر پایا تھا، بیوی بچوں کا گُزر بسر کس طرح ہو گا؟ ایک لکھنے والے اور ایک صحافی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ صرف آج میں زندہ رہتا ہے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی اسے مہلت اور طاقت کبھی ملتی ہی نہیں!
چھ بج چُکے تھے بچوں کے اسکول جانے کا وقت ہونے والا تھا، لائٹ ابھی تک نہیں آئی تھی، مجھے الاارم بجنے کی آواز آئی،کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔۔۔!
ارے یہ یہاں ہی سو گئے کام کرتے کرتے !
اس کی نظر میری ناک سے نکلے خون پر نہیں گئی ، جو اب جم چُکا تھا!

Advertisements
julia rana solicitors

میری بیوی نے انتہائی نرمی اور کوئی آواز کیے بنا انابیہ کو میری گود سے الگ کیا، اس کی پوری کوشش تھی کے کہیں میری آنکھ نہ کُھل جائے، وہ جانتی تھی کہ مجھے نیند بہت مشکل سے آ تی ہے، یہ ہی وجہ کہ اگر میں گھر کے کسی بھی حصے میں سو جاوں تو اس حصے میں کرفیو نافذ ہو جاتا ہے ، بچے کہیں بابا اُٹھ نہ جائیں شور نہیں کرتے اور بیوی مجھے بھرپور نیند کا پورا موقع فراہم کرتی ہے لیکن آج اس کی یہ عادت میرے لیے کوفت کا باعث بننے والی تھی ، میں اب پڑے پڑے اکتا گیا تھا میں چاہ رہا تھا کہ بس اب جلد از جلد مجھے میری ماں کے قدموں میں لٹال دیا جائے!
بچے تیار ہو رہے تھے ، کسی کو کچھ چاہیے تھا کسی کو کچھ، بینش ایک ٹانگ پر بھاگ بھاگ کر بچوں کو تیار کر رہی تھی انہیں ناشتہ کروا رہی تھی ، میرے بچے صبح اتنا شور کرتے ہیں اتنا مشکل سے تیار ہوتے ہیں مجھے یہ آج معلوم ہو رہا تھا، جب تک زند ہ تھا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ بچے کب اسکول گئے دفتر جانے کے وقت اٹھتا تھا اور دفتر سے جب واپس آتا تو بچے سو چکے ہوتے تھے، بچوں سے عموماً ملاقات چھٹی والے دن ہی ہوا کرتی تھی یا پھر کبھی جب بچے دیر سے سوئیں یا میں جلدی آ جاوں۔۔!
بچے جا چکے تھے اور اب گھر میں صرف میں تھا یا اہلیہ جو اب دوبارہ جا کر سو چُکیں تھیں!
میں مر چکا تھا ، اور جو مجھ سے محبت کرتے تھے وہ سو رہے تھے !
کچھ یہاں کچھ وہاں !
(مانی جی ، میں عوام)

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply